تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے، ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا
چل دیئے سوئے حرم ، کوئے بتاں سے
جب دیا رنج بتوں نے تو خدا یاد آیا
مومن خان مومن
پیدائش:18جنوری 1801
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردو غزل کے عظیم شاعر محمد مومن المعروف حکیم مومن خان مومن 18 جنوری 1801میں دہلی کے کوچہ چیلان کے ایک کشمری خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کے دادا مدار خان کو بادشاہ کی طرف سے اک جاگیر ملی تھی جو نواب فیض خان نے ضبط کرکے ایک ہزار روپے سالانہ پنشن مقرر کر دی تھی ۔یہ پنشن ان کے خاندان میں جاری رہی۔ مومن خان کا گھرانا بہت مذہبی تھا۔انہوں نے عربی تعلیم شاہ عبدالقادر دہلوی سے حاصل کی۔فارسی میں بھی ان کو مہارت تھی۔دنیوی علوم کی تعلیم انہوں نے مکتب میں حاصل کی۔علوم متداولہ کے علاوہ ان کو طب،رمل،نجوم ریاضی،شطرنج اور موسیقی سے بھی دلچسپی تھی، جوا نی میں قدم رکھتے ہی انہوں نے شاعری شروع کردی اور شاہ نصیر سے اصلاح لینے لگے لیکن جلد ہی انہوں نے مشق اور جذبات کے راست بیاں کے طفیل دہلی کے شاعروں میں اپنی خاص جگہ بنا لی۔
مالی لحاظ سے وہ متوسط طبقہ سے تعلق رکھتے تھے۔خاندانی پنشن ایک ہزار روپے سالانہ ضرور تھی لیکن وہ پوری نہیں ملتی تھی جس کا شکوہ ان کے فارسی خطوط میں ملتا ہے۔مومن خاں کی زندگی اور شاعری پر دو چیزوں نے بہت گہرا اثر ڈالا ۔ایک ان کی رنگین مزاجی تھی اور دوسری ان کی مذہبیت۔لیکن ان کی زندگی کا سب سے دلچسپ حصہ ان کے معاشقے ہی ہیں۔محبت زندگی کا تقاضہ بن کر بار بار ان کے دل و دماغ پر چھاتی رہی۔ان کی شاعری پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ شاعر کسی خیالی نہیں بلکہ ایک جیتی جاگتی محبوبہ کے عشق میں گرفتار ہے۔دہلی کا حسن پرور شہر اس پر مومن کی رنگین مزاجی،خود خوبصورت اور خوش لباس،نتیجہ یہ تھا انہوں نے بہت سے شکار پکڑےاور خود کم شکار ہوئے۔
” اے غزال چشم سدا میرے دام میں
*صیاد ہی رہا میں،گرفتار کم ہوا“
ان کے کلیات میں چھ مثنویاں شامل ہیں اور ہر مثنوی کسی معاشقہ کا بیان ہے۔نہ جانے اور کتنے معاشقے ہوں گے جن کو مثنوی کی شکل دینے کا موقع نہ ملا ہو گا۔مومن کی محبوباؤں میں سے صرف ایک کا نام معلوم ہو سکا۔یہ تھیں امتہ الفاطمہ جن کا تخلص "صاحب جی” تھا۔موصوفہ پورب کی پیشہ ور طوائف تھیں جو علاج کے لئے دہلی آئی تھیں۔مومن حکیم تھے لیکن ان کی نبض دیکھتے ہی خود ان کے بیمار ہو گئے۔متعدد معاشقے مومن کے مزاج کے تلون کا بھی پتہ دیتے ہیں۔اس تلوّن کی جھلک ان کی شاعری میں بھی ہےکبھی تو وہ کہتے ہیں۔
اس نقش پا کے سجدے نے کیا کیا کیا ذلیل
میں کوچۂ رقیب میں بھی سر کے بل گیا
اور پھر یہ بھی کہتے ہیں۔
معشوق سے بھی ہم نے نبھائی برابری
واں لطف کم ہوا تو یہاں پیار کم ہوا
مومن کے یہاں اک خاص قسم کی شانِ استغناء تھی۔ مال و زر کی طلب میں انہوں نے کسی کا قصیدہ نہیں لکھا۔ ان کے نو قصیدوں میں سے سات مذہبی نوعیت کے ہیں۔ایک قصیدہ انہوں نے راجہ پٹیالہ کی شان میں لکھا ۔اس کا قصہ یوں ہے کہ راجہ صاحب کو ان سے ملنے کا اشتیاق تھا۔ ایک روز جب مومن ان کی رہائش گاہ کے سامنے سے گزر رہے تھے تو ،انہوں نے آدمی بھیج کر انہیں بلا لیا،بڑی عزت سے بٹھایا اور باتیں کیں اور چلتے وقت ان کو ایک ہتھنی پر سوار کر کے رخصت کیا اور وہ ہتھنی انہیں کو دے دی ۔مومن نے قصیدے کے ذریعہ ان کا شکریہ ادا کیا۔دوسرا قصیدہ نواب ٹونک کی خدمت میں نہ پہنچ پانے کا معذرت نامہ ہے۔ کئی ریاستوں کے نوابین ان کو اپنے یہاں بلانا چاہتے تھے لیکن وہ کہیں نہیں گئے۔دہلی کالج کی پروفیسری بھی نہیں قبول کی۔
یہ استغناء شاید اس مذہبی ماحول کا اثر ہو جس میں ان کی پرورش ہوئی تھی۔شاہ عبدالعزیز کے خاندان سے ان کے خاندان کے گہرے مراسم تھے۔مومن عقیدتاً کٹّر مسلمان تھے۔ 1818ء میں انہوں نے سید احمد بریلوی کے ہاتھ پر بیعت کی لیکن ان کی جہاد کی تحریک میں خود شریک نہیں ہوئے۔البتہ جہاد کی حمایت میں ان کے کچھ شعر ملتے ہیں۔ مومن نے دو شادیاں کیں، پہلی بیوی سے ان کی نہیں بنی پھر دوسری شادی خواجہ میر درد کے خاندان میں خواجہ محمد نصیر کی بیٹی سے ہوئی۔موت سے کچھ عرصہ پہلے وہ عشق بازی سے کنارہ کش ہو گئے تھے۔1851ء میں وہ کوٹھے سے گر کر بری طرح زخمی ہوگئے تھے اور پانچ ماہ بعد 14 مٸی 1852 میں ان کا انتقال ہوا ۔
مومن کے شاعرانہ مرتبہ کے متعلّق اکثر نقّاد متفق ہیں کہ انہیں قصیدہ ،مثنوی اور غزل پر یکساں قدرت حاصل تھی۔قصیدے میں وہ سودا اور ذوق کے مرتبہ کو نہیں پہنچتے تاہم اس میں شک نہیں کہ وہ اردو کے چند اچھے قصیدہ گو شعراء میں شامل ضرور ہیں۔مثنوی میں وہ دیا شنکر نسیم اور مرزا شوق کے ہم پلہ ہیں لیکن مومن کی شاعرانہ عظمت کا انحصار ان کی غزل پر ہے۔ایک غزل گو کی حیثیت سے مومن نے اردو غزل کو ان خصوصیات کا حامل بنایا جو غزل اور دوسری اصناف میں امتیاز پیدا کرتی ہیں۔ مومن کی غزل تغزّل کی شوخی،شگفتگی ،طنز اور رمزیت کی بہتریں ترجمان کہی جا سکتی ہے۔ان کی محبت جنسی محبت ہے جس پر وہ پردہ نہیں ڈالتے۔پردہ نشین تو ان کی محبوبہ ہے۔عشق کی وادی میں مومن جن جن حالات و کیفیات سے گزرے ان کو خلوص و صداقت کے ساتھ شعروں میں بیان کر دیا۔حسن و عشق کے خدّوخال میں انہوں نے تخیل کے جو رنگ بھرے وہ ان کی اپنی ذہنی اپچ ہے۔ان کے اچھوتے تخیل اور نرالے انداز بیان نےپرانے اور فرسودہ مضامین کو از سر نو زندہ اور شگفتہ بنایا۔مومن اپنے عشق کے بیاں میں ابتذال نہیں پیدا ہونے دیتے۔انہوں نے لکھنوی شاعری کا رنگ اختیار کرتے ہوئے دکھا دیا کہ خارجی مضامین بھی تہذیب و متانت کے ساتھ بیان کئے جا سکتے ہیں اور یہی وہ طرۂ امتیاز ہے جو ان کو دوسرے غزل گو شعراء سے ممتاز کرتا ہے۔
غزل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رویا کریں گے آپ بھی پہروں اسی طرح
اٹکا کہیں جو آپ کا دل بھی مری طرح
آتا نہیں ہے وہ تو کسی ڈھب سے داؤ میں
بنتی نہیں ہے ملنے کی اس کے کوئی طرح
تشبیہ کس سے دوں کہ طرح دار کی مرے
سب سے نرالی وضع ہے سب سے نئی طرح
مر چک کہیں کہ تو غم ہجراں سے چھوٹ جائے
کہتے تو ہیں بھلے کی ولیکن بری طرح
نے تاب ہجر میں ہے نہ آرام وصل میں
کم بخت دل کو چین نہیں ہے کسی طرح
لگتی ہیں گالیاں بھی ترے منہ سے کیا بھلی
قربان تیرے پھر مجھے کہہ لے اسی طرح
پامال ہم نہ ہوتے فقط جور چرخ سے
آئی ہماری جان پہ آفت کئی طرح
نے جائے واں بنے ہے نہ بن جائے چین ہے
کیا کیجیے ہمیں تو ہے مشکل سبھی طرح
معشوق اور بھی ہیں بتا دے جہان میں
کرتا ہے کون ظلم کسی پر تری طرح
ہوں جاں بہ لب بتان ستم گر کے ہاتھ سے
کیا سب جہاں میں جیتے ہیں مومنؔ اسی طرح
غزل
۔۔۔۔۔
اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا
رنج راحت فزا نہیں ہوتا
بے وفا کہنے کی شکایت ہے
تو بھی وعدہ وفا نہیں ہوتا
ذکر اغیار سے ہوا معلوم
حرف ناصح برا نہیں ہوتا
کس کو ہے ذوق تلخ کامی لیک
جنگ بن کچھ مزا نہیں ہوتا
تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا
اس نے کیا جانے کیا کیا لے کر
دل کسی کام کا نہیں ہوتا
امتحاں کیجیے مرا جب تک
شوق زور آزما نہیں ہوتا
ایک دشمن کہ چرخ ہے نہ رہے
تجھ سے یہ اے دعا نہیں ہوتا
آہ طول امل ہے روز فزوں
گرچہ اک مدعا نہیں ہوتا
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
حال دل یار کو لکھوں کیوں کر
ہاتھ دل سے جدا نہیں ہوتا
رحم کر خصم جان غیر نہ ہو
سب کا دل ایک سا نہیں ہوتا
دامن اس کا جو ہے دراز تو ہو
دست عاشق رسا نہیں ہوتا
چارۂ دل سوائے صبر نہیں
سو تمہارے سوا نہیں ہوتا
کیوں سنے عرض مضطر مومنؔ
صنم آخر خدا نہیں ہوتا
غزل
۔۔۔۔۔
دفن جب خاک میں ہم سوختہ ساماں ہوں گے
فلس ماہی کے گل شمع شبستاں ہوں گے
ناوک انداز جدھر دیدۂ جاناں ہوں گے
نیم بسمل کئی ہوں گے کئی بے جاں ہوں گے
تاب نظارہ نہیں آئنہ کیا دیکھنے دوں
اور بن جائیں گے تصویر جو حیراں ہوں گے
تو کہاں جائے گی کچھ اپنا ٹھکانا کر لے
ہم تو کل خواب عدم میں شب ہجراں ہوں گے
ناصحا دل میں تو اتنا تو سمجھ اپنے کہ ہم
لاکھ ناداں ہوئے کیا تجھ سے بھی ناداں ہوں گے
کر کے زخمی مجھے نادم ہوں یہ ممکن ہی نہیں
گر وہ ہوں گے بھی تو بے وقت پشیماں ہوں گے
ایک ہم ہیں کہ ہوئے ایسے پشیمان کہ بس
ایک وہ ہیں کہ جنہیں چاہ کے ارماں ہوں گے
ہم نکالیں گے سن اے موج ہوا بل تیرا
اس کی زلفوں کے اگر بال پریشاں ہوں گے
صبر یا رب مری وحشت کا پڑے گا کہ نہیں
چارہ فرما بھی کبھی قیدئ زنداں ہوں گے
منت حضرت عیسیٰ نہ اٹھائیں گے کبھی
زندگی کے لیے شرمندۂ احساں ہوں گے
تیرے دل تفتہ کی تربت پہ عدو جھوٹا ہے
گل نہ ہوں گے شرر آتش سوزاں ہوں گے
غور سے دیکھتے ہیں طوف کو آہوئے حرم
کیا کہیں اس کے سگ کوچہ کے قرباں ہوں گے
داغ دل نکلیں گے تربت سے مری جوں لالہ
یہ وہ اخگر نہیں جو خاک میں پنہاں ہوں گے
چاک پردے سے یہ غمزے ہیں تو اے پردہ نشیں
ایک میں کیا کہ سبھی چاک گریباں ہوں گے
پھر بہار آئی وہی دشت نوردی ہوگی
پھر وہی پاؤں وہی خار مغیلاں ہوں گے
سنگ اور ہاتھ وہی وہ ہی سر و داغ جنون
وہ ہی ہم ہوں گے وہی دشت و بیاباں ہوں گے
عمر ساری تو کٹی عشق بتاں میں مومنؔ
آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہوں گے
متفرق اشعار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمر تو ساری کٹی عشق بتاں میں مومنؔ
آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہوں گے
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی یعنی وعدہ نباہ کا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا
کیا جانے کیا لکھا تھا اسے اضطراب میں
قاصد کی لاش آئی ہے خط کے جواب میں
میں بھی کچھ خوش نہیں وفا کر کے
تم نے اچھا کیا نباہ نہ کی
کسی کا ہوا آج کل تھا کسی کا
نہ ہے تو کسی کا نہ ہوگا کسی کا
آپ کی کون سی بڑھی عزت
میں اگر بزم میں ذلیل ہوا
تھی وصل میں بھی فکر جدائی تمام شب
وہ آئے تو بھی نیند نہ آئی تمام شب
شب جو مسجد میں جا پھنسے مومنؔ
رات کاٹی خدا خدا کر کے
رویا کریں گے آپ بھی پہروں اسی طرح
اٹکا کہیں جو آپ کا دل بھی مری طرح
چل دئیے سوئے حرم کوئے بتاں سے مومنؔ
جب دیا رنج بتوں نے تو خدا یاد آیا
ہاتھ ٹوٹیں میں نے گر چھیڑی ہوں زلفیں آپ کی
آپ کے سر کی قسم باد صبا تھی میں نہ تھا
ہے کچھ تو بات مومنؔ جو چھا گئی خموشی
کس بت کو دے دیا دل کیوں بت سے بن گئے ہو
مانگا کریں گے اب سے دعا ہجر یار کی
آخر تو دشمنی ہے اثر کو دعا کے ساتھ
ٹھانی تھی دل میں اب نہ ملیں گے کسی سے ہم
پر کیا کریں کہ ہو گئے ناچار جی سے ہم
وہ آئے ہیں پشیماں لاش پر اب
تجھے اے زندگی لاؤں کہاں سے
کس پہ مرتے ہو آپ پوچھتے ہیں
مجھ کو فکر جواب نے مارا
اس نقش پا کے سجدے نے کیا کیا کیا ذلیل
میں کوچۂ رقیب میں بھی سر کے بل گیا
نہ کرو اب نباہ کی باتیں
تم کو اے مہربان دیکھ لیا
حال دل یار کو لکھوں کیوں کر
ہاتھ دل سے جدا نہیں ہوتا
ہنس ہنس کے وہ مجھ سے ہی مرے قتل کی باتیں
اس طرح سے کرتے ہیں کہ گویا نہ کریں گے
اس غیرت ناہید کی ہر تان ہے دیپک
شعلہ سا لپک جائے ہے آواز تو دیکھو
الجھا ہے پانوں یار کا زلف دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا
مجلس میں مرے ذکر کے آتے ہی اٹھے وہ
بدنامی عشاق کا اعزاز تو دیکھو
بہر عیادت آئے وہ لیکن قضا کے ساتھ
دم ہی نکل گیا مرا آواز پا کے ساتھ
مومنؔ خدا کے واسطے ایسا مکاں نہ چھوڑ
دوزخ میں ڈال خلد کو کوئے بتاں نہ چھوڑ
اتنی کدورت اشک میں حیراں ہوں کیا کہوں
دریا میں ہے سراب کہ دریا سراب میں
چارۂ دل سوائے صبر نہیں
سو تمہارے سوا نہیں ہوتا
غیروں پہ کھل نہ جائے کہیں راز دیکھنا
میری طرف بھی غمزۂ غماز دیکھنا
معشوق سے بھی ہم نے نبھائی برابری
واں لطف کم ہوا تو یہاں پیار کم ہوا
ہو گیا راز عشق بے پردہ
اس نے پردہ سے جو نکالا منہ
ہے کس کا انتظار کہ خواب عدم سے بھی
ہر بار چونک پڑتے ہیں آواز پا کے ساتھ
کچھ قفس میں ان دنوں لگتا ہے جی
آشیاں اپنا ہوا برباد کیا
راز نہاں زبان اغیار تک نہ پہنچا
کیا ایک بھی ہمارا خط یار تک نہ پہنچا
رہ کے مسجد میں کیا ہی گھبرایا
رات کاٹی خدا خدا کر کے
ہم سمجھتے ہیں آزمانے کو
عذر کچھ چاہیے ستانے کو
تو کہاں جائے گی کچھ اپنا ٹھکانہ کر لے
ہم تو کل خواب عدم میں شب ہجراں ہوں گے
لے شب وصل غیر بھی کاٹی
تو مجھے آزمائے گا کب تک
ڈرتا ہوں آسمان سے بجلی نہ گر پڑے
صیاد کی نگاہ سوئے آشیاں نہیں
گو آپ نے جواب برا ہی دیا ولے
مجھ سے بیاں نہ کیجے عدو کے پیام کو
بے خود تھے غش تھے محو تھے دنیا کا غم نہ تھا
جینا وصال میں بھی تو ہجراں سے کم نہ تھا
محشر میں پاس کیوں دم فریاد آ گیا
رحم اس نے کب کیا تھا کہ اب یاد آ گیا
تاب نظارہ نہیں آئنہ کیا دیکھنے دوں
اور بن جائیں گے تصویر جو حیراں ہوں گے
نہ مانوں گا نصیحت پر نہ سنتا میں تو کیا کرتا
کہ ہر ہر بات میں ناصح تمہارا نام لیتا تھا
ہو گئے نام بتاں سنتے ہی مومنؔ بے قرار
ہم نہ کہتے تھے کہ حضرت پارسا کہنے کو ہیں
صاحب نے اس غلام کو آزاد کر دیا
لو بندگی کہ چھوٹ گئے بندگی سے ہم
کل تم جو بزم غیر میں آنکھیں چرا گئے
کھوئے گئے ہم ایسے کہ اغیار پا گئے
اعجاز جاں دہی ہے ہمارے کلام کو
زندہ کیا ہے ہم نے مسیحا کے نام کو
دیدۂ حیراں نے تماشا کیا
دیر تلک وہ مجھے دیکھا کیا
نے جائے واں بنے ہے نے بن جائے چین ہے
کیا کیجئے ہمیں تو ہے مشکل سبھی طرح
دھو دیا اشک ندامت نے گناہوں کو مرے
تر ہوا دامن تو بارے پاک دامن ہو گیا
سوز غم سے اشک کا ایک ایک قطرہ جل گیا
آگ پانی میں لگی ایسی کہ دریا جل گیا
مومن میں اپنے نالوں کے صدقے کہ کہتے ہیں
اس کو بھی آج نیند نہ آئی تمام شب
ناصحا دل میں تو اتنا تو سمجھ اپنے کہ ہم
لاکھ ناداں ہوئے کیا تجھ سے بھی ناداں ہوں گے
میرے تغییر رنگ کو مت دیکھ
تجھ کو اپنی نظر نہ ہو جائے
پیہم سجود پائے صنم پر دم وداع
مومنؔ خدا کو بھول گئے اضطراب میں
گو کہ ہم صفحۂ ہستی پہ تھے ایک حرف غلط
لیکن اٹھے بھی تو اک نقش بٹھا کر اٹھے
اب شور ہے مثال جودی اس خرام کو
یوں کون جانتا تھا قیامت کے نام کو
دشنام یار طبع حزیں پر گراں نہیں
اے ہم نشیں نزاکت آواز دیکھنا
ناوک انداز جدھر دیدۂ جاناں ہوں گے
نیم بسمل کئی ہوں گے کئی بے جاں ہوں گے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تلاش ، ترتیب و ترسیل : آغا نیاز مگسی