تم قانون نہیں بناتے، انصاف نہیں کرتے تو لوگ پھر خود ہی انصاف کریں گے !!! از قلم : غنی محمود قصوری

0
28

یہ ملک اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے خواب اور حضرت محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے ساتھیوں کی قربانیوں سے قرآن و حدیث کے مطابق نظام رائج کرنے کیلئے بنایا گیا تھا جس کا اقرار کئی بار مرحوم قائد اعظم اپنی تقاریر میں کر چکے تھے یہی بات کافر کو ازل سے ناگوار ہے اور پاکستان میں شرع اللہ کا نفاذ بھی کفار کیلئے قابل قبول نہیں اسی لئے کفار نے اس نظام کو ختم کرنے کیلئے اسی ملک کے اندر سے ہی کچھ دین فروش لوگوں کو خریدا ان کو پڑھایا لکھایا اور اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز کروایا تاکہ وہ منافقین اپنی طاقت استعمال کرتے ہوئے شرع اللہ کے نفاذ میں رکاوٹوں کا جال بچھائے رکھیں اور عوامی مطالبات کو کچلتے رہیں حالانکہ ہماری اسمبلیاں اور سینٹ عوامی مطالبات پر قانون سازی کرنے کے دعویدار ہیں جبکہ صدر پاکستان اپنا ذاتی اختیار استعمال کرتے ہوئے قانون سازی کر سکتا ہے
ہمارا المیہ ہے کہ ہم پر مسلط سابقہ و موجودہ حکمران طبقہ ووٹ تو ہم سے لیتا ہے جبکہ نظام کفار کا چلا رہا ہے حالانکہ قیام پاکستان کے اوائل دنوں میں قائد اعظم کی قیادت میں ارض پاک پاکستان کتاب اللہ اور شریعت محمدیہ کی جانب گامزن تھا مگر اللہ کو ہمارا مذید امتحان درکار تھا سو اللہ نے قائد اعظم رحمتہ اللہ علیہ کو اس دار فانی سے اپنے پاس بلا لیا جس کے بعد حالات کچھ غلط سمت چل نکلے تاہم مرحوم جنرل ضیاء الحق شہید نے عملی طور پر حدود اللہ کا کچھ نفاذ کرکے اس ملک پاکستان کو اس کی اصلی منزل کی طرف گامزن کیا مگر ازل سے شرع اللہ کے دشمن اس نظام سے گھبرا گئے تاکہ یہ شرع پر قائم پاکستان پوری دنیا پر چھا کر سپر پاور بن جائے گا کیونکہ مسلمان کی بقاء و سلامتی شرع اللہ ہی میں ہے سو انہوں نے جنرل ضیا الحق کو شہید کروا دیا
دیکھا جائے اسلام سے دوری کمزور عدالتی نظام اور شرع اللہ سے بغاوت کے باعث آج موجودہ پاکستان میں ہر برائی ملے گی مگر حالیہ چند سالوں سے زنا کی وارداتیں انتہائی سنگین صورتحال اختیار کر گئی ہیں ایک اندازے کے مطابق ملک پاکستان میں سالانہ 3 ہزار سے اوپر زنا بالجبر کے مقدمات درج ہوتے ہیں جن میں چھوٹی معصوم بچیوں اور بچوں تک سے زنا کیا گیا ہوتا ہے مگر افسوس صد افسوس کے ہمارے کمزور عدالتی نظام،وڈیرہ شاہی اور رشوت ستانی کے باعث صرف 3 فیصد لوگوں کو ہی سزا ہوتی ہے وہ بھی واجبی سی باقی لوگ مکمل رہا ہو جاتے ہیں جو کہ ہمارے عدالتی نظام کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ ہیں حالانکہ ریپ کیسز بہت زیادہ ہیں مگر یہاں صرف رجسٹرڈ کیسز کی بات کی گئی ہے
جیسے جیسے ملک میں ریپ کیسز کی وارداتوں میں اضافہ ہو رہا ہے ویسے ہی لوگوں کی طرف سے مجرمان کو سرعام پھانسی کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے مگر افسوس کہ ارباب اختیار کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی جو کہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ انہیں مجرمان کو سرعام پھانسی دینے میں کیا قباحت ہے؟
حالانکہ تین دھائیاں قبل جنرل ضیاء الحق نے ریپ کیس کے مجرمان کو جرم ثابت ہونے پر سر عام پھانسی پر لٹکایا تھا جس کے باعث پوری ایک دھائی کوئی ریپ کیس نا ہوا تھا
بڑھتے ہوئے ریپ کیسز اور پھر ملزمان کا رہا ہو جانا لوگوں کو مایوس کر رہا ہے جس پر رنجیدہ لوگوں نے ریپ کیسز کے مجرمان کو خود ہی سزا دینے کا فیصلہ کیا ہے جس کے تناظر میں رواں برس ملک میں ایسے کئی ملزمان کو لوگوں نے خود موت کے گھاٹ اتارا مگر ان میں سے ایک حالیہ کیس قصور کا ایسا بھی ہے جس کے باعث لوگ سوچنے پر مجبور ہو گئے ہی کہ مجرمان کو سزا عدالت نہیں دیتی تو پھر ہم خود ہی سزا دینگے
23 ستمبر کو قصور کے تھانہ کھڈیاں کے علاقے ویرم ہتھاڑ میں اسلم عرف ملنگی نامی درندے نے ایک دس سالہ بچی سے زنا بالجبر کی کوشش کی تھی ملزم کے خلاف بچی کے ورثاء نے تھانہ کھڈیاں خاص قصور میں مقدمہ نمبر 548/20 بجرم 376/511 درج کروایا مگر ملزم نے ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کر لی اور بچی کے ورثاء کو ڈرانا دھمکانا شروع کر دیا جس پر رنجیدہ اور عدالتی نظام سے بیزار ورثاء نے خود ہی ملزم ملنگی کو وکیل کے چیمبر میں قتل کر دیا
سوچنے کی بات ہے ایک جگہ اکھٹے رہتے ہوئے آخر کیا وجہ تھی کہ بچی کے ورثاء نے ملزم کو کچہری میں قتل کیا حالانکہ وہ ملزم کو اس کے گھر یا علاقے میں جہاں کہ دونوں فریقین رہتے تھے، وہاں پر ہی قتل کر سکتے تھے مگر درحقیقت بچی کے ورثاء نے اپنے قریب ترین ہوئے ریپ کیسز زینب مرڈر کیس،سانحہ چونیاں قصور اور کھڈیاں ہی میں پولیس اہلکار کے ہاتھوں جنسی زیادتی پر آمادہ نا ہونے پر حافظ قرآن کو قتل کرنے والے ملزم کا پروٹوکول دیکھا اور وہ ملزم کی ضمانت قبل از گرفتاری اور ملزم کی طرف سے کھلے عام دھمکیوں پر سخت رنجیدہ تھے سو انہوں نے کچہری میں ملزم کو اس لئے قتل کیا کہ یہ ایک پیغام عدلیہ،انتظامیہ،مقننہ کے نام ہو جائے کہ اگر تم انصاف کے نام لیوا اور دعوے دار ہو کر انصاف نا کر سکو گے تو پھر ہم تو اپنی عزت کی خاطر ایسا کرینگے ہی
#قصوریات

Leave a reply