تربیت اولاد کے دو اصول..از..خواجہ مظہر صدیقی

0
133

چند روز پہلے فیصل آباد کے ایک نجی سکول کی سالانہ پیرنٹس ٹیچرز میٹنگ میں میرا تربیت اولاد کے عنوان پر سیشن تھا. اس تقریب میں کچھ بچوں اور والدین کو ایوارڈز بھی دیے گئے تھے. ایک دراز قد، بہ ظاہر ان پڑھ خاتون کو "سال کی بہترین ماں” کا ایوارڈ دیا گیا.

سیشن کے اختتام پر میں نے ایوارڈ حاصل کرنے والی ماں کو ڈھونڈنا شروع کیا. لیکن وہ سکول میں پڑھنے والے تینوں بچوں کو لے کر اپنے گھر واپس جلی گئی تھیں. میں نے پرنسپل صاحب سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ اگر آپ کو اس خاتون کا گھر معلوم ہو تو میں آپ کے ساتھ جا کر کچھ دیر کے لیے اس ماں سے ملنا چاہتا ہوں.

پرنسپل صاحب مجھے سکول سے بہت دور محلہ غلام آباد لے گئے. وہاں ایک معمولی سا گھر تھا. جو ایک کمرے پر ہی مشتمل تھا. چھوٹا سا برآمدہ اور اتنا ہی صحن تھا. بچے اور ان کی ماں گھر میں موجود تھے . وہاں جا کر معلوم ہوا کہ بچوں کا والد ایک فیکٹری میں مزدوری کرتا ہے. ان کے تین بیٹے ہیں اور بیٹی کوئی نہیں. ماں گھر میں رہ کر سلائی مشین پر لوگوں کے کپڑے سیتی ہے. اپنی محنت کی کمائی سے وہ بچوں کی سکول فیس ادا کرتی ہے. یہ صرف ماں کا ہی شوق تھا کہ بچے شہر کے اچھے سکول میں پڑھ رہے تھے. سکول انتظامیہ نے بچوں کے شوق اور تعلیمی رجحان کو دیکھ کر کچھ فیس کم بھی کر دی تھی.

میری کھوجی طبیعت کو ایک دل چسپ سٹوری ملنے والی تھی. میں ہمیشہ اپنے ارد گرد بکھری کہانیوں کو ہی فوکس کرتا ہوں. ہمارے ارد گرد ایسے ہزاروں کردار موجود ہیں جنہیں رول ماڈل بنا کر آگے بڑھا جا سکتا ہے. زندگی ساز اور کردار ساز واقعات کی ہمارے ہاں کوئی کمی نہیں، بس دیکھنے والی آنکھ اور محسوس کرنے والے دل کی کمی ہے.

میں نے پرنسپل صاحب کی اجازت سے اس خاتون سے پوچھا کہ آپ کو سال کی بہترین ماں کا ایوارڈ ملا ہے. اس ایوارڈ ملنے پر آپ کیا محسوس کر رہی ہیں ؟ وہ خاتون پر جوش اور پر اعتماد انداز میں بولیں، مجھے بہت خوشی ہو رہی ہے. پچھلے سال بھی مجھے ہی یہ ایوارڈ ملا تھا. کیوں کہ میرے بچے سکول سے ناغہ نہیں کرتے، صاف ستھرے یونیفارم میں سکول جاتے ہیں. ان کی لکھائی بہت خوب صورت ہے. ان کا ہوم ورک مکمل ہوتا ہے. یاد کرنے کا سبق بھی ٹھیک طرح سے یاد کر کے جاتے ہیں. تینوں بچے ہر سال امتحانات میں فرسٹ پوزیشن بھی لیتے ہیں. خاتون کے بچے بلترتیب چھٹی، پانچویں اور چوتھی جماعتوں میں زیر تعلیم تھے.

میں نے پوچھا، کیا بچے سکول کے بعد اکیڈمی پڑھنے جاتے ہیں؟، وہ خاتون جھٹ سے بولی. نہیں، میں نے انہیں کبھی بھی کسی اکیڈمی میں نہیں بھیجا. میں ان پڑھ ہوں لیکن میں نے دو اصولوں کو اپنی زندگی کا لازمہ بنا لیا ہے.

پہلا اصول یہ ہے کہ میں گھر کے تمام ضروری اور بنیادی کام کپڑے دھونا، صفائی وغیرہ، کھانا پکانا، سلائی مشین پر کپڑے سینا اس وقت کرتی ہوں جب بچے سو رہے ہوں یا سکول گئے ہوں یا عصر کے بعد گراؤنڈ میں کھیلنے کے لیے گئے ہوں. میں اس دوران میں ہی سارے کام نمٹا لیتی ہوں . جب میرے بچے گھر آتے ہیں تو میں اپنی پوری توجہ ان کو دیتی ہوں. اس وقت گھر کا کوئی کام نہیں کرتی. میرے بچے ہوتے ہیں یا میں ان کا سایہ بن کر ان کے ساتھ ساتھ ہوتی ہوں.

میں بڑی توجہ سے سادہ پنجابی لہجے کی اردو میں اس خاتون کی باتیں سن رہا تھا، جب وہ لمحے بھر کو رکیں تو میں نے پوچھا دوسرا اصول بھی بتا دیں . وہ ہلکی سی مسکراہٹ چہرے پہ سجاتے ہوئے بولیں، میرا دوسرا اصول یہ جیسے ہی میرے بچے مغرب کی نماز سے فارغ ہوتے ہیں. میں فرش پر چٹائی بچھا کر بیٹھ جاتی ہوں اور انہیں کہتی ہوں کہ اپنے اپنے سکول کے بستے لے آؤ. پھر میں ان میں سے ہر ایک سے اس کا سکول میں پڑھا جانے والا سبق سنتی ہوں.

بچوں کی ماں کہتی ہے کہ مجھے کچھ سمجھ نہیں آتی. لیکن میرے بچے سمجھتے ہیں کہ میں پڑھی لکھی ہوں اور سب کچھ سمجھ رہی ہوں. میں ہر مضمون کا سبق تین بار پڑھنے کا کہتی ہوں. بچے سناتے ہوئے یاد کر لیتے ہیں. روز کا سبق روز یاد کرنے سے بچے امتحانات کے دنوں میں پریشان بھی نہیں ہوتے. انہیں پوری کتاب یاد ہو چکی ہوتی ہے. مغرب سے عشاء تک بچے بلا ناغہ میرے پاس بیٹھ کر پڑھتے ہیں. میں بھی روز کچھ نیا سیکھتی ہوں. اور میرے دل کو تسلی بھی ہو جاتی ہے کہ میرے تینوں بیٹوں نے اپنا سبق دہرا کر اپنے ذہنوں میں محفوظ کر لیا ہے.

بات ختم ہو چکی تھی. میں وہاں سے واپس آتے ہوئے رستے میں یہ سوچ رہا تھا کہ ایک ان پڑھ ماں اپنے بچوں کو ملک و قوم کی خدمت کے لیے کس انداز میں تیار کر رہی تھی. وہ قابل تعریف ماں ہے. یقیناً یہی بچے ہمارے مستقبل کے معمار بنیں گے.

ایک قابل رشک کہانی… تربیت اولاد کے دو اصول
(خواجہ مظہر صدیقی)

Leave a reply