ڈیرہ غازی خان (باغی ٹی وی رپورٹ)بلوچستان میں 10 اور 11 جولائی کی درمیانی شب پیش آنے والے دلخراش واقعے میں دہشتگردوں کے ہاتھوں قتل کیے گئے 9 مسافروں میں لودھراں کے دو سگے بھائی بھی شامل تھے جو اپنے والد کے انتقال کی اطلاع پر گھر واپس آرہے تھے۔ افسوسناک طور پر اب ان کے خاندان کو ایک نہیں بلکہ تین جنازوں کا سامنا ہے۔
تحصیل دنیاپور ضلع لودھراں سے تعلق رکھنے والے جابر طور اور عثمان طور اپنے والد نذیر طور کے انتقال کی اطلاع ملنے کے بعد کوئٹہ سے روانہ ہوئے تاکہ نمازِ جنازہ میں شرکت کر سکیں۔ مگر راستے میں فتنہ الہند کے دہشتگردوں نے ان کی بس کو روک کر انہیں اہل خانہ کے سامنے شناختی کارڈ دیکھ کر اتارا اور پھر پہاڑی علاقے میں لے جا کر بے دردی سے قتل کر دیا۔
مقتولین کے بھائی صابر طور نے بتایا کہ دونوں بھائی والد کی تدفین کی تیاری کے لیے آرہے تھے، مگر اب ہمارے گھر سے دو کے بجائے تین جنازے اٹھیں گے۔ یہ غم لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ جابر اور عثمان طور کے چھوٹے بچے اور خواتین اس صدمے سے نڈھال ہو چکے ہیں۔
دوسری طرف مقتولین میں گوجرانوالہ کے علاقے واہنڈو (صائب) سے تعلق رکھنے والے 42 سالہ صابر حسین بھی شامل تھے جو بلوچستان کے ایک پکوان سینٹر پر کام کرتے تھے۔ صابر 15 سال سے محنت مزدوری کر رہے تھے اور اپنے 4 بچوں سمیت پورے خاندان کے واحد کفیل تھے۔ ان کے بڑے بیٹے کی عمر صرف 14 سال ہے۔
صابر کی ہلاکت سے ان کا خاندان معاشی طور پر بھی شدید متاثر ہوا ہے۔ محض شناخت کی بنیاد پر قتل کیا جانا انسانیت سوز درندگی ہے، جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔
یاد رہے کہ 10 جولائی کی شام کوئٹہ سے لاہور جانے والی دو مسافر کوچز اے کے موورز اور سپر میختر بلوچستان کے علاقے ژوب میں دہشتگردوں نے روکا، شناختی کارڈ چیک کیے اور پنجاب سے تعلق رکھنے والے 12 افراد کو بس سے اتار کر علیحدہ کیا۔ ان میں سے 9 کو شناخت کے بعد پہاڑوں میں لے جا کر فائرنگ کر کے شہید کر دیا گیا۔
لاشیں بعد ازاں بارڈر ایریا بواٹہ پر پنجاب کی انتظامیہ نے وصول کیں اور انہیں مکمل سرکاری اعزاز کے ساتھ ان کے آبائی علاقوں کو روانہ کیا گیا۔ ڈپٹی کمشنر ڈیرہ غازی خان محمد عثمان خالد، کمانڈنٹ بارڈر فورس محمد اسد خان چانڈیہ اور کمشنر اشفاق احمد چوہدری اس عمل کی نگرانی کر رہے تھے۔








