متحدہ عرب امارات کے صدر کا پاکستان کا دورہ محض رسمی نہیں بلکہ اسٹریٹجک نوعیت کا حامل ہوگا، اور اس کے اثرات قلیل المدت کے ساتھ ساتھ طویل المدت بھی نظر آ سکتے ہیں۔ سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ پاکستان اور یو اے ای کے تعلقات جذبات، تاریخ اور مفادات تینوں کی بنیاد پر استوار ہیں۔ خلیج میں مقیم لاکھوں پاکستانی، ترسیلاتِ زر، دفاعی تعاون اور سرمایہ کاری یہ سب اس رشتے کو غیر معمولی وزن دیتے ہیں۔ امکان یہی ہے کہ اس دورے میں سرمایہ کاری، توانائی، انفراسٹرکچر، بندرگاہوں اور زراعت جیسے شعبے زیرِ بحث آئیں گے۔ پاکستان اس وقت معاشی استحکام کی جس جدوجہد سے گزر رہا ہے، اس میں یو اے ای کی براہِ راست سرمایہ کاری اور مالی تعاون نہایت اہم ثابت ہو سکتا ہے۔ سیاسی اعتماد کی بحالی یہ دورہ عالمی برادری کے لیے ایک واضح پیغام ہوگا کہ پاکستان سفارتی طور پر تنہا نہیں۔ یو اے ای جیسے مضبوط اور مستحکم ملک کا پاکستان کے ساتھ کھڑا ہونا خطے میں پاکستان کے سیاسی وزن کو تقویت دے گا۔

علاقائی اور عالمی تناظر مشرقِ وسطیٰ میں تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال، توانائی کی سیاست اور عالمی طاقتوں کی نئی صف بندیاں ان سب میں پاکستان اور یو اے ای کا قریبی مشاورت میں آنا وقت کی ضرورت بن چکا ہے۔ دفاعی و سلامتی تعاون اگرچہ یہ پہلو زیادہ نمایاں نہیں کیا جاتا، مگر پسِ پردہ دفاعی تعاون، تربیت اور سلامتی کے امور بھی اس دورے کے ایجنڈے کا حصہ ہو سکتے ہیں۔ اگر اس دورے کو محض بیانات اور تصویروں تک محدود نہ رکھا گیا، بلکہ ٹھوس معاہدات اور عملی پیش رفت سامنے آئی، تو یہ پاکستان کے لیے نہایت مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ اصل کامیابی کا پیمانہ یہی ہوگا کہ دورے کے بعد عوام کو معاشی بہتری اور ریاست کو سفارتی مضبوطی کی صورت میں کیا حاصل ہوتا ہے۔یہ دورہ امکانات سے بھرپور ہے اب یہ پاکستانی پالیسی سازوں کی سنجیدگی اور عملدرآمد پر منحصر ہے کہ ان امکانات کو حقیقت میں کیسے بدلا جاتا ہے۔

Shares: