مزید دیکھیں

مقبول

سانحہ بلوچستان،شہید ڈرائیور کا تعلق قصور سے،اہلیان علاقہ سوگ میں

قصور گزشتہ دن بلوچستان ٹرین سانحے میں جعفر ایکسپریس...

کے الیکٹرک نےپتنگ بازی سے خبردار کردیا

کراچی: کے الیکٹرک نے شہریوں کو خبردار کیا ہے...

یوکرین نے امریکی عارضی جنگ بندی کی تجویز قبول کر لی

سعودی عرب کی میزبانی میں امریکا اور یوکرین کے...

اوچ شریف: کھوجی کتوں کا غیر قانونی دھندا عروج پر، بے گناہ شہریوں کی زندگیوں سے کھلواڑ

اوچ شریف (نامہ نگار حبیب خان) اوچ شریف اور اس کے گردونواح میں کھوجی کتوں کے ڈاگ سینٹرز کا غیر قانونی کاروبار عروج پر پہنچ گیا ہے۔ ڈاگ سینٹرز کے ایجنٹ شہریوں سے بھاری رقوم بٹور رہے ہیں، جبکہ پولیس بھی اپنی ذمہ داریوں سے جان چھڑانے کے لیے ان غیر مستند کھوجی کتوں پر انحصار کر رہی ہے۔ اس غیر قانونی طریقہ کار کے باعث کئی بے گناہ شہری جیلوں میں بند ہیں اور درجنوں خاندان جھوٹے الزامات کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔

تفصیلات کے مطابق اوچ شریف کے مختلف علاقوں موضع مانجھی والا، بن والا، بیٹ بختیاری، دھوڑکوٹ، حلیم پور، خیر پور ڈاہا اور دیگر مقامات پر موجود ڈاگ سینٹرز کے مالکان اور ایجنٹ انسانی تذلیل کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں۔ کھوجی کتوں کے ذریعے لوگوں کو چوری، ڈکیتی اور دیگر مقدمات میں ملوث کر کے بلیک میل کیا جا رہا ہے۔

چوری کی واردات کے بعد متاثرہ شخص سے ڈاگ سینٹر کے ایجنٹ رابطہ کرتے ہیں اور انہیں اپنی چرب زبانی سے قائل کر لیتے ہیں کہ چوری کا سراغ لگانے کے لیے کھوجی کتے کا استعمال ضروری ہے۔ ایجنٹ بھاری فیس وصول کر کے کھوجی کتے کو مخصوص انداز میں کسی بھی گھر میں داخل کرواتے ہیں اور پھر اسی گھر کے افراد پر چوری کا الزام لگا دیا جاتا ہے۔

یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ کھوجی کتوں کی نشاندہی پر گاؤں کی پنچایتوں میں لوگوں کو قرآن پاک پر حلف اٹھانے پر مجبور کیا جاتا ہے جو کہ ایک غیر شرعی اور غیر قانونی عمل ہے۔ مقامی کھوجی اور ڈاگ سینٹر کے مالکان پہلے سے مخصوص ٹارگٹ طے کر کے کھوجی کتوں کو متعلقہ گھر کی طرف بھیجتے ہیں، جہاں کتے کے بیٹھ جانے پر پولیس کارروائی عمل میں لے آتی ہے اور بے گناہ افراد کو جیل بھیج دیا جاتا ہے۔

ذرائع کے مطابق یہ ڈاگ سینٹرز زیادہ تر اوکاڑہ، بہاولپور، ملتان اور دیگر شہروں میں ریٹائرڈ آرمی افسران یا کسی میجر کے نام پر چلائے جا رہے ہیں۔ ان مراکز کے مالکان اپنے ایجنٹوں کے ذریعے وزیٹنگ کارڈ تقسیم کرتے ہیں اور ایک چوری کا سراغ لگانے کے لیے 15,000 سے 20,000 روپے تک وصول کیے جاتے ہیں۔ اگر دوبارہ کھوجی کتے کو چھوڑنے کی ضرورت پیش آئے تو فیس دُگنی کر دی جاتی ہے۔

ایجنٹوں کے ہاتھوں لٹنے والے کئی متاثرہ شہریوں کا کہنا ہے کہ یہ مافیا پہلے سے ہی ٹارگٹ طے کر کے لوگوں کو بلیک میل کرتا ہے۔ مخصوص الفاظ جیسے "اپنا کام کرو”، "تلاش کرو”، "فائنل کرو” کا استعمال کر کے کتے کو مخصوص گھر میں داخل کرایا جاتا ہے اور الزام اس گھر کے افراد پر ڈال دیا جاتا ہے۔

یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ پنجاب کی مختلف جیلوں میں ہزاروں افراد صرف کھوجی کتوں کی غلط نشاندہی کی بنیاد پر قید ہیں۔ اگر کسی چوری یا ڈکیتی کے دوران کوئی ہلاکت ہو جائے تو پولیس تفتیش کرنے کے بجائے فوراً کھوجی کتوں کو طلب کر لیتی ہے اور ان کی غلط نشاندہی پر بے گناہ لوگوں کو قتل جیسے سنگین الزامات میں پھنسا دیا جاتا ہے۔

شہریوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان ڈاگ سینٹرز کے خلاف فوری کارروائی کرے اور پولیس کو واضح ہدایات جاری کرے کہ کھوجی کتوں کی نشاندہی پر کسی بھی قسم کی ایف آئی آر درج نہ کی جائے۔ بصورت دیگر، معصوم لوگ اسی طرح ناکردہ جرم کی سزا بھگتتے رہیں گے اور کئی بے گناہ خاندان دشمنیوں کا شکار ہوتے رہیں گے۔

ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی
ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانیhttp://baaghitv.com
ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی 2003ء سے اب تک مختلف قومی اور ریجنل اخبارات میں کالمز لکھنے کے علاوہ اخبارات میں رپورٹنگ اور گروپ ایڈیٹر اور نیوز ایڈیٹرکے طورپر زمہ داریاں سرانجام دے چکے ہیں اس وقت باغی ٹی وی میں بطور انچارج نمائندگان اپنی ذمہ داری سرانجام دے رہے ہیں