یوکرائن تنازعہ،اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، تحریر: نوید شیخ
اس وقت یوکرائن تنازعہ اپنے جوبن پر پہنچ چکا ہے ۔ صف بندی ہوچکی ہے ۔ امریکہ اور یورپ کے روس کے خلاف اس سے زیادہ سخت بیانات میں نہیں سنے ۔ اور ردعمل میں روس بھی ڈٹا ہوا ہے ۔ یوں اب محسوس ہونے لگا ہے کہ جنگ ٹلنا ممکن نہیں رہا ۔ ۔ ویسے ابھی جنگ شروع نہیں ہوئی ہے مگر اس اثرات دنیا پر پڑنے لگے ہیں ۔ اس تنازعہ کی وجہ سے عالمی خام تیل کی مارکیٹ میں بھونچال آگیا ہے ۔ قیمتیں آسمان پر پہنچ گئی ہیں ابھی تو یہ 96ڈالر پر بیرل پر ہیں پر کہا جا رہا ایک آدھ دن میں سنچری مکمل ہوجائے گی ۔ پھر جنگ ہوتی ہےتو یورپ کو روس کی گیس نہیں ملے گی ۔ اس سلسلے میں یورپ نے متبادل زرائع سے گیس حاصل کرنے کی تیاری کر لی ہے ۔ ۔ دوسری جانب یوکرین کی سرحد پر روس اپنی فوجوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ ذرائع ابلاغ پر جاری بیانیے کی جنگ کا رخ بھی اپنے حق میں موڑنے کی کوشش تیز کر دی ہیں ۔
کیونکہ مغربی میڈیا اس وقت یک طرفہ روس کے خلاف رپورٹنگ کررہا ہے ۔ وہ یہ تو بتا رہا ہے کہ روس کے اتنے فوجی فلاں سرحد کے پاس ہیں تو روس نے فضائی تیاری یہ کر رکھی ہے ۔ مگر وہ یہ نہیں بتا رہا کہ امریکہ اور اتحادیوں کے کتنے فوجی یوکرائن میں ہیں وہ یہ نہیں بتا رہا ہے کہ امریکہ یوکرائن کو نیٹو میں شامل کروارہا ہے ۔ ۔ وہ یہ نہیں بتا رہا کہ روس نے ایک ایسی امریکی آبدوز کا تعاقب کیا جس کے بارے میں کہا گیا تھا کہ وہ North Pacific کے Coral Islands
کے نزدیک پانیوں میں داخل ہو گئی تھی۔۔ وہ یہ نہیں بتا رہا ہے کہ یوکرائن دارالحکومت Kiev میں شہریوں کو لڑنے کی تربیت دی جا رہی ہے ۔ شہریوں کو بندوق کے استعمال، اسے چلانے، گولہ بارود لوڈ کرنے اور اہداف کو نشانہ بنانا تک سیکھا جا رہا ہے ۔ وہ یہ نہیں بتا رہا ہے کہ مغرب نے یوکرائن کو جدید ترین اسلحہ سے مسلح کرنا شروع کردیا ہے۔ صرف امریکہ نے یوکرائن کو بیس کروڑ ڈالر کا اسلحہ فراہم کیا ہے۔ یعنی بڑی ہوشیاری سے یوکرائن کو روس کے خلاف تیار کیا جا رہا ہے ۔ دراصل مغربی طاقتوں نے روس کا پتہ ہمیشہ کے لیے کاٹنے کی تیاری مکمل کر لی ہے ۔ اور اب بس گھمسان کا رن پڑنے والا ہے ۔ کیونکہ روس بھی اتنی آسانی سے سرنگوں نہیں ہوگا ۔ وہ بھی اپنا پورا زور لگا رہا ہے ۔ امریکہ اور یورپ روس کو وِلن بنا کر پیش کررہے ہیں کہ وہ جارحیت کا ارتکاب کرکے اپنے چھوٹے ہمسایہ ملک یوکرائن کو ہڑپ کرنا چاہتا ہیے۔ حالانکہ حقیقت میں یوکرائن کا بحران امریکہ اور مغربی یورپ کا پیدا کردہ ہے۔ جب سوویت یونین نے مشرقی جرمنی اورمغربی جرمنی کے اتحاد کو تسلیم کیا تھا تو اس وقت مغربی یورپ کے رہنماؤں نے ماسکو کو یقین دلایا تھا کہ نیٹوکے فوجی اتحاد کو مشرق کی طرف توسیع نہیں دی جائے گی لیکن اِس زبانی یقین دہانی پر عمل نہیں کیا گیا۔
۔ دراصل امریکہ نے یوکرین کو نیٹو میں شامل کرنے کے لئے آٹھ سال مسلسل کوشش کی ہے اور گذشتہ ماہ امریکی صدر جوبائیڈن نے یہ اعلان کیا کہ اب یوکرین کے پاس فیصلے کا اختیار ہے کہ وہ کب نیٹو میں شامل ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جیسے ہی یوکرین نیٹو میں شامل ہو گا، فوراً امریکہ وہاں اپنے میزائل نصب کر دے گا، بالکل ویسے ہی جیسے روس نے
1962ء میں کیوبا میں اپنے میزائل نصب کئے تھے۔ تو امریکہ صدر کے اعلان کے بعد سے حالات کشیدہ ہوئے ہیں ۔ مگر مغربی میڈیا یہ نہیں بتا رہا ہے وہ روس کو ایک جارحیت پسند ملک بناکرپیش کررہا ہے ۔ تاریخ کے اوراق پلٹائے جائیں تو اکتوبر 1962ء کے تقریباً ساٹھ سال بعد کوئی امریکی صدر ایک بار پھر اُسی لہجے میں بولا ہے۔ حالات بالکل ویسے ہی ہیں۔ اس وقت امریکہ نے سوویت یونین کو نشانے پر رکھنے کے لئے اٹلی اور ترکی میں میزائل نصب کئے تو جوابی طور پر سوویت یونین نے کیوبا کے صدر Federal Castro کی درخواست کو منظور کرتے ہوئے امریکہ کے پڑوس میں واقع کیوبا کی سرزمین پر روسی میزائل نصب کرنے کی منظوری دے دی۔ اُس وقت بھی مذاکرات کے دوران کشیدگی اس سطح پر جا پہنچی تھی کہ امریکی صدر John F. Candy مذاکرات کے آخری روز، پوری رات ٹیلی ویژن پر امریکی عوام کو جنگ کے لئے تیار کرتے رہے۔
اب ساٹھ سال بعد ایک بار پھر کسی امریکی صدر کے منہ سے ایسے ہی فقرے سنائی دیئے ہیں۔ یہ فقرے زیادہ خطرناک اس لئے بھی ہیں کہ اس دفعہ محاذ جنگ امریکہ کے پڑوس میں نہیں، بلکہ اس سے ہزاروں میل دُور، روس کے پڑوس میں سجنے جا رہا ہے۔ اور امریکہ نے ہمیشہ اس جنگ کو روکنے کی کوشش کی ہے جو اسکی سرزمین کے آس پاس لڑی جانی ہو ۔ ورنہ اپنی سرزمین سے دُور تو وہ ہر جنگ میں خود کودتا ہے۔ بلکہ خود اسٹیج تیارکرواکے تماشا لگاتا ہے ۔ پھر میں یاد کروادوں کہ روس کے ہمسائے صرف یوکرائن ہی نہیں ۔۔Belarus میں بھی ایسی حکومت لانے کی کوشش کی گئی جو ماسکو کی بجائے مغرب نواز ہو۔ چند ہفتے پہلے مغربی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے وسط ایشیا میں واقع قازقستان میں بھی شورش برپا کروائی ۔ مگر Kremlin نے اپنی افواج وہاں بھیج کر فساد پر قابو پانے میں قازقستان کی مدد کی۔ اس وقت امریکہ اور یورپ چاروں طرف سے روس پر حملہ آورہیں۔ خود روس کے اندر مختلف گروہوں کے ذریعے صدر پیوٹن کے خلاف تحریک چلوانے کی کوشش کی گئی۔ تاکہ ماسکو میں ایسی حکومت بن جائے جو امریکہ اور مغربی یورپ کے بلاک میں شامل ہو اور چین کا مقابلہ کرے۔ مگر پیوٹن ڈٹ گیا ہے اور گذشتہ جمعہ کو جب جوبائیڈن تقریر کر رہا تھا۔ تو اس دن روس نے وہی قدم اُٹھایا تھا جو امریکہ نے کیوبا کے خلاف اُٹھایا تھا، یعنی اس نے یوکرین کی بحری ناکہ بندی کر دی۔ یہ دراصل اعلانِ جنگ ہوتا ہے۔ لیکن روس نے وضاحت یہ کی کہ وہ دراصل بحری افواج کی مشقیں کر رہا ہے جو دس دنوں تک جاری رہیں گی۔ مگر جو بھی وضاحت ہو، اس وقت یوکرین زمینی اور سمندری طور پر روسی افواج کے گھیرے میں آ چکا ہے، جو اس پر کسی بھی وقت حملہ کر سکتی ہیں۔ ۔ کیونکہ یاد رکھیں صدر پیوٹن کہہ چکے ہیں کہ ہم کبھی برداشت نہیں کریں گے کہ یوکرین جو کئی صدیاں روس کا حصہ رہا ہے۔ وہ نیٹو کا حصہ بن جائے۔ جس دن ایسا کیا گیا۔ یہ ہمارے لئے اعلانِ جنگ ہو گا۔ اس حوالے سے مغرب بھی واشگاف الفاط میں کہہ رہا ہے کہ اگر روس کی طرف سے یوکرائن کی علاقائی سالمیت اور خودمختاری کی مزید خلاف ورزیاں ہوئیں تو اتحادی اس کے خلاف تیزی کے ساتھ اور بہت سخت مشترکہ پابندیاں عائد کرنے کے لیے تیار ہیں۔۔ اس حوالےسے امریکا نے تو کہا ہے کہ ایسی پابندیاں عائد کریں گے جس سے روس مکمل طور پر اپاہج ہوجائے گا۔ جن میں ممکنہ طور پر ایل این جی کی فروخت بھی شامل ہے۔
روس یورپی ممالک کو ایل این جی فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے اور پابندی کی صورت میں مغربی ممالک میں توانائی کا بحران پیدا ہوجائے گا جس کے لیے امریکا نے قطر سے مدد مانگ لی ہے۔۔ ادھر روس نے بھی ممکنہ پابندی کی صورت میں ہونے والے مالی نقصان سے بچنے کے لیے چین کا دورہ کیا اور چینی صدر کے ساتھ اربوں ڈالر کے ایل این کی فروخت کا معاہدہ کیا تھا۔ دوسری جانب امریکہ اور جوبائیڈن مسلسل دھمکیاں دے رہے ہیں کہ یوکرائن پر حملہ روس کو بہت مہنگا پڑے گا۔ مگر روس کوئی خاص گھاس ڈال نہیں رہا ۔ امریکی صدر نے ہفتے کو روسی صدر کیساتھ ٹیلیفون پر بات چیت بھی کی تاہم کوئی خاطر خواہ حل نہیں نکل سکا۔ روسی خارجہ پالیسی کے ایک مشیر نے موجودہ صورتحال کودیوانے پن کی انتہا قرار دیا ہے۔۔ چند روز قبل فرانس کے صدر Emmanuel Macron نے بھی روس اور یوکرائن کا دورہ کیا تھا لیکن یہ دورہ بھی کسی مثبت پیشرفت کے بغیر ہی ختم ہوگیا تھا۔ برطانوی وزیراعظم بورس جانسن بھی خوب ایکٹیو ہوگئے ہیں ۔ جرمنی کے چانسلر نے بھی اس حوالے سے وائٹ ہاؤس میں صدر جوبائیڈن سے ملاقات کی تھی۔ پھر جرمن چانسلر بھی روس کو خبردارکر رہے ہیں ۔ ترکی، پولینڈ، اور نیدرلینڈز کے رہنما بھی یوکرائن گئے ۔ دیکھا جائے تو گزشتہ ایک ہفتے میں ایسا کوئی دن نہیں تھا، جب کوئی اہم امریکی یا یورپی رہنما یوکرائنی دارالحکومت kiev نہ پہنچا ہو۔ ان تمام رہنماؤں نے یوکرائنی فوج کے لیے ہتھیاروں کی فراہمی کے وعدے کیے اور ماسکو کے لیے سخت الفاظ میں انتباہ جاری کیے۔
۔ امریکا کی انٹلیجنس کی تازہ اطلاعات کے مطابق روس اولمپکس مقابلے ختم ہونے سے پہلے ہی یوکرائن پر حملہ کرسکتا ہے۔ اسی لیے امریکا اور یورپی ملکوں نے اپنے شہریوں کو جلد از جلد یوکرائن چھوڑنے کا کہا ہوا ہے ۔ رُوس کا یوکرائن کی سرحد پر فوجیں جمع کرنے کا مقصد صرف اس پر حملہ کرنا نہیں بلکہ امریکہ اور مغربی یورپ پر دباؤ ڈالنا ہے کہ روس کے ساتھ دفاع اور سلامتی کے امور پر جامع معاہدہ کریں۔ اسی لیے روسی صدر پیوٹن نے مغربی ممالک کی طرف سے روس کو دباؤ میں لانے کی کوشش اور اُس کے یوکرائن پر فوجی حملے کے ارادوں کے بارے میں دعووں پر شدید تنقید کی ہے۔ پوٹن نے مغرب کے اس اقدام کو ۔۔۔ اشتعال انگیزی اور قیاس آرائیاں ۔۔۔ قرار دیا ہے۔۔ فی الحال جو دیکھائی دے رہا ہے کہ ماسکو نے فیصلہ کیا کہ نیٹو کو مزید روسی سرحدوں کے قریب آنے نہیں دیا جائے گا۔ چاہے اسکی جو بھی قیمت ہو ۔
۔ یاد رکھیں یہ جنگ شروع ہوگئی تو پاکستان کا بھی اس سے دور رہنا ممکن نہیں ہوگا ۔ اور اس سلسلے میں ہم کو بہت اہم فیصلہ بھی کرنا ہو ۔ کہ ہم مشرق کا ساتھ دیں گے یا پھر مغرب کے ہاتھوں میں کھیلتے رہیں گے ۔ اسی حوالے سے وزیر اعظم عمران خان چند روز میں روس جا رہے ہیں۔ دعا گو ہوں کہ وہ فیصلہ ہو پاکستان کے لیے بہتر ہو








