چراغ زندگی ہوگا فروزاں ہم نہیں ہوں گے
چمن میں آۓ گی فصل بہاراں ہم نہیں ہوں گے
28 فروری بروز جمعہ کا دن ایک دلخراش خبر کے ساتھ طلوع ہوا۔ جمعہ کی رات فیس بک پر سکرولنگ کے دوران دارالعلوم ثانی جامعہ حقانیہ میں ہونے والے المناک دھماکے کی خبر نظروں سے گزری۔ پہلے تو یقین نہ آیا، فوراً سرچ کیا تو معلوم ہوا کہ یہ سچ ہے۔ دل پر جیسے بجلی سی گر گئی اور پورا دن انتہائی سوگوار گزرا۔ پھر دھماکے کے بعد کی ویڈیوز دیکھیں، وہ معصوموں اور بے گناہوں کے بکھرے وجود کا منظر، جو آنکھوں کے سامنے سے ہٹانا ناممکن لگتا تھا۔
دل غم کی شدت سے تڑپتا رہا کیونکہ مدارس والوں کو تو مدارس سے عشق ہوتا ہے۔ آج تک عالمِ اسلام میں مولانا سمیع الحق کی کمی پوری نہیں ہو پائی تھی کہ ایک اور سانحہ امت مسلمہ پر ٹوٹ پڑا۔ شہید ابن شہید، مولانا حامد الحق کی شہادت امت مسلمہ کے لیے ناقابل تلافی نقصان ہے۔ آہ! امت مسلمہ پھر سے یتیم ہوگئی۔
کاش کہ اسلام کو مٹانے کی کوشش کرنے والے یہ سمجھ سکیں کہ ان کی سازشیں امت مسلمہ کے دل میں انتقام کی آگ سلگانے کے سوا کچھ حاصل نہیں کر سکتیں۔ کیونکہ اللہ کا قانون ہے کہ اسلام کو جتنا دبانے کی کوشش کی جائے گی، یہ اتنا ہی ابھر کر پھیلے گا۔وہ تو جنت کے باسی تھے، راہِ حق میں قربان ہونے کے لیے جان ہتھیلی پر لیے پھرتے تھے، جو اللہ کے سوا کسی سے ڈرنے کو کفر سمجھتے تھے۔ یقیناً جب وہ اللہ کے حضور پہنچے ہوں گے، تو فرشتوں نے ان کا استقبال کیا ہوگا۔ لیکن ان کے اہلِ خانہ اور ان تمام لوگوں کا کیا قصور تھا جنہیں ان کی ضرورت تھی؟ کیوں ہمیں رمضان المبارک کی شروعات میں لاشوں کا تحفہ دیا گیا؟
اللہ تعالیٰ ان کے لواحقین کو اور ہم سب کو صبرِ جمیل عطا فرمائے۔آمین
دیوانے گزر جائیں گے ہر منزل غم سے
حیرت سے زمانہ انھیں تکتا ہی رہے گا
آتی رہے گی تیرے انفاس کی خوشبو
گلشن تیری یادوں کا مہکتا ہی رہے گا