امید ایک شے ہے جس کی وجہ سے دنیا قائم ہے۔ہر ذی روح امید کے سہارے زندہ ہے۔امید ایک خوشی ہے بلکہ یوں کہنا ہر گز غلط نہ ہو گا کہ امید ایک نئی زندگی ہے۔اس دنیا کی زندگی سے الگ ایک زندگی جہاں انسان دنیا کی زندگی میں ہار مان جاتا ہے تب یہ امید اسے ایک نئی زندگی دیتی ہے۔جب انسان بالکل ناامید ہو جاتا ہے تو یہ امید ہی ہوتی ہے جو انسان کو خوشی اور سکون دیتی ہے۔یوں کہہ لیں امید برے حال کی دوا ہے جس سے انسان کو راحت نصیب ہوتی ہے جب اس کو مشکلوں اور غموں نے گھیر رکھا ہوتا ہے۔شاید امید اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کو دیا گیا سب سے الگ اور ایک انوکھا تحفہ ہے۔
یہ کائنات امید پر ہی قائم ہے۔ آج کی اس ٹیکنالوجی کے دور میں جہاں ہم رہ رہے ہیں اگر امید نہ ہوتی تو انسان کبھی یہاں تک نہ پہنچ سکتا۔ اگر امید نہ ہوتی تو انسان آج بہت ساری ایجادات سے محروم ہوتا۔اس کی جیتی جاگتی مثال انیسوی صدی کا موجد تھامسن ایڈیسن کی ایجاد ات ہیں۔سب سے بڑھ کر جو تحفہ اس نے مصنو عی روشنی یعنی بلب کی شکل میں دنیا کو دیا اس احسان کے نیچے دنیا کے تمام حسین و دلکش شہر آج بھی دبے ہوئے ہیں۔
بلب کی ایجاد کے سلسلے میں ایڈیسن نے ایک ہزار کے قریب تجربات کیے جن میں نو سو ننانوے بار اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا لیکن جب بھی اس کا کوئی تجربہ ناکام ہوتا وہ امید کے سہارے اس ناکامی کو برداشت کر لیتا۔اسے امید تھی کہ ایک دن یہ بلب جل کر رہے گا اور امید نے اس کے اندر کی لگن کو مزید بڑھایا اور آخرکار تھامسن ایڈیسن نے بلب روشن کر کے دکھایا۔
اس کی ایک اور مثال جب انسان کسی پرندے کو قید کرتا ہے تو پرندے کو اس قیدی تنہائی میں جو چیز زندہ رکھتی ہے وہ امید ہی ہوتی ہے۔اس ایک امید کا ہی سہارا ہوتا ہے کہ شاید وہ اس قید سے چھٹکارا پا لے گا اور ان بلند و بالا پہاڑوں کی چوٹیوں اور اس نیلے آسمان کو چیرتے ہوئے اپنی زندگی گزارے گا۔یہ امید ہی ہے جس کی وجہ سے وہ قید تنہائی کی اندر بھی زندگی بڑی خوشی سے گزار رہا ہے۔
دوستو امید ایک مشکل وقت کی ساتھی ہے۔امید کے سہارے انسان کہاں سے کہاں پہنچ گیا۔انسان کی زندگی میں ہر طرح کے اونچ نیچ آتے رہتے ہیں لیکن اگر انسان نا امید ہو جائے تو زندگی بیکار ہو جاتی ہے۔لیکن اگر انسان امید کا دامن نے چھوڑے تو امید انسان کو کھٹن سے کھٹن مشکلات طے کروا کر ہی دم لیتی ہے۔لہذا ہمیں چاہیے کا امید کا دامن نہ چھوڑیں۔
Twitter id @ waqasumerpk