فلسطین اور امت مسلمہ کی بے حسی .تحریر: ارم ثناء

2 مہینے قبل
تحریر کَردَہ
gaza

ایک امت، جسد واحد جس کو ایک جسم کی مانند کہا جاتا ہے۔ جس کے آباؤ اجداد نے کئی کئی سالوں تک کئی مربع میل پر حکومت کی ہے، جن کے نام سے ہی غیر مسلم ڈرتے تھے۔ آج اسی امت کے ایک حصے کو بڑی بے دردی سے ختم کیا جا رہا ہے، جبکہ دوسرا حصہ اپنے عیش و آرام کی زندگی بسر کر رہا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ اسی قوم کی مائیں سلطان صلاح الدین ایوبی، محمد فتح پیدا کرتی تھیں، جبکہ آج اسی قوم کی مائیں ٹک ٹاکر، ادکار پیدا کرتیں ہیں۔
ایک زمانہ تھا کہ جب اس قوم کی عورتوں نے اپنے زیورات، بیٹے تک اللہ کی راہ میں قربان کر دیے تھے، جبکہ آج کی نوجوان نسل اسرائیلی پروڈکٹس کا بائیکاٹ تک نہیں کر سکتی۔ یہ لوگ macdonald, coca-cola, lay’s l, وغیرہ کو نہیں چھوڑ سکتے۔ ہماری آج کی نوجوان نسل کو لگتا ہے کہ گاڑیوں کے پیچھے فلسطین کے جھنڈے لگا لینے سے اور گاڑیوں کے اوپر "free Palestine” لکھنے سے انہوں نے حق ادا کردیا ہے، کل کو قیامت میں ان سے اس حوالے سے سوال وجواب نہیں کیا جائے گا۔ اے امت مسلمہ اپنے ذہنوں سے یہ نکال دو، "کہ تم لوگوں سے سوالات نہیں کیے جائیں گے”. اے امت مسلمہ تم لوگوں سے ضرور پوچھا جائے گا۔ تم لوگ اللہ کے دشمنوں کی مالی مدد کررہے ہو تم کو کیا لگتا ہے؟ کہ اللہ تعالیٰ تم کو چھوڑ دے گا؟ تم لوگوں نے اللہ کے احکامات کو پس پشت ڈال دیا یے، تم لوگوں نے اللہ کے احکامات پر اپنے نفس کو ترجیح دی ہے۔ اللہ نے سورتہ البقرہ کی آیت 155 میں فرمایا ہے۔
وَ لَنَبۡلُوَنَّکُمۡ بِشَیۡءٍ مِّنَ الۡخَوۡفِ وَ الۡجُوۡعِ وَ نَقۡصٍ مِّنَ الۡاَمۡوَالِ وَ الۡاَنۡفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ ؕ وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیۡنَ ﴿۱۵۵﴾ۙ
ترجمہ: اور ہم کسی نہ کسی طرح تمہاری آزمائش ضرور کریں گے ، دشمن کے ڈر سے ، بھوک پیاس سے ، مال و جان اور پھلوں کی کمی سے اور ان صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجئے ۔

آج یہ صرف فلسطین کے مسلمانوں کی آزمائش نہیں ہے۔ یہ پوری امت مسلمہ کی آزمائش ہے، وہ لوگ اپنی آزمائش پر ثابت قدمی سے ڈٹے رہے۔ انہوں نے اللہ کے احکامات پر عمل کرکے اپنے نفس کی خواہشات کو پیچھے چھوڑ کر اللہ کی رضا حاصل کر لی ہے۔ اور ہم لوگ اسی خیالات میں خوش ہیں کہ قیامت والے دن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری سفارش کر دینی ہے۔ جی بالکل آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کی سفارش کرنی ہے،
Surat No 25 : سورة الفرقان – Ayat No 43

اَرَءَیۡتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـہَہٗ ہَوٰىہُ ؕ اَفَاَنۡتَ تَکُوۡنُ عَلَیۡہِ وَکِیۡلًا ﴿ۙ۴۳﴾
ترجمہ: کیا آپ نے اسے بھی دیکھا جو اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنائے ہوئے ہے کیا آپ اس کے ذمہ دار ہوسکتے ہیں؟

کیا آج ہم نے اپنے نفس کو اللہ کے احکامات پر ترجیح نہیں دی؟ ہم کو جہاد، قتال کا حکم ہے کیا ہم جہاد کر رہے ہیں؟ کیا ہماری آج کی نوجوان نسل جہاد کےلئے تیار ہے؟ کیا ہماری مائیں اپنے بچوں کو اللہ کی راہ میں قربان کر سکتی ہیں؟ ان سب کا جواب ہے۔ "نہیں” کیوں؟ کیونکہ ہم یہ عیش و عشرت کی زندگی نہیں چھوڑ سکتے، ہم لوگ اپنے نفس کو نہیں مار سکتے، ہم اتنے بہادر نہیں ہیں کہ ہم اپنا جان و مال اللہ کی راہ میں قربان کر دیں۔ ہم لوگ تو بے حیائی کو نہیں چھوڑ سکتے، ہم نوجوان نسل آج اپنی نظروں کی حفاظت نہیں کر سکتی، ہم مائیں بہنیں آج پردہ نہیں کر سکتی، تو یہ جہاد کیوں کر کریں گے؟ اب سب لوگ اپنا محاسبہ کریں کہ کیا کل کو قیامت کے دن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہماری سفارش کریں گے؟ جبکہ ہم لوگ اللہ اور اس کے دین کے دشمنوں کی معیشت کو مضبوط کر رہے ہیں، ہم لوگ ان کی پروڈکٹس کا بائیکاٹ نہیں کر سکتے، جبکہ ہم اللہ کے احکامات کو پس پشت ڈال چکے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہمیں اپنے بچوں کی تربیت اسلام کے مطابق کرنی چاہیے، ان کو صحابہ کرام اور جنگی واقعات سنا کر بڑا کرنا چاہیے، نا کہ کارٹون دیکھا کر۔ ہمیں اسلام کا گہرائی سے مطالعہ کرنا چاہیے۔ امت مسلمہ کو اپنی بے حسی چھوڑ کر اللہ کے احکامات پر عمل کرنا چاہیے۔ ہمیں اپنی نوجوان نسل کو جہاد کےلئے تیار کرنا چاہیے۔

Latest from مسلم دنیا