تاریخ کا پہیہ اکثر وہی مناظر دہراتا ہے جنہیں انسان بھولنا چاہتا ہے۔ چودہ سو سال قبل 61 ہجری میں سرزمینِ کربلا پر ایک خونی داستان رقم ہوئی، جہاں نواسۂ رسول ﷺ، حضرت امام حسینؑ نے اپنے خاندان سمیت دینِ محمدیؐ کی بقا کے لیے اپنی جان قربان کر دی۔ امامؑ نے یزید کی جابر حکومت کے سامنے سر جھکانے سے انکار کرتے ہوئے قربانی، حریت، اور اصول پسندی کی وہ مثال قائم کی جو رہتی دنیا تک ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔
یزید محض ایک فرد نہیں بلکہ ایک سوچ، ایک نظام، ایک ایسا نظریہ ہے جو طاقت کے نشے میں عدل و انسانیت کو روند ڈالتا ہے۔ کربلا میں اسی سوچ نے پانی بند کیا، بچوں، عورتوں اور اہلِ بیتؑ پر ظلم کے پہاڑ توڑے، حتیٰ کہ نواسۂ رسول ﷺ کے سر کو نیزے پر چڑھا دیا گیا۔ یہ صرف ایک واقعہ نہیں بلکہ قیامت تک کے لیے ظلم کے خلاف بغاوت کا اعلان ہے۔
آج فلسطین، خاص طور پر غزہ، اسی یزیدی ذہنیت کا شکار ہے۔ اسرائیل 1948ء سے نہ صرف فلسطینیوں کے گھروں پر قبضہ کر رہا ہے بلکہ مسجد اقصیٰ کو بارہا نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ ہزاروں معصوم بچوں، عورتوں اور بزرگوں کو شہید کر دیا گیا ہے۔ 2023 سے جاری موجودہ جنگ میں تو ظلم کی انتہا ہو چکی ہے — اسپتال، اسکول، امدادی کیمپ، حتیٰ کہ اقوامِ متحدہ کے دفاتر تک محفوظ نہیں۔ دنیا کی بڑی طاقتوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی خاموشی ایک نئی کربلا کی یاد دلاتی ہے۔
کیا یہ سب ایک نیا یزید نہیں؟ کیا اسرائیل کی درندگی، نسل کشی، اور مذہبی مقامات کی بے حرمتی کربلا کے یزیدی مظالم سے کم تر ہے؟ کربلا میں پانی بند کیا گیا، غزہ میں پانی، بجلی، دوا، خوراک — سب کچھ بند ہے۔ وہاں یزید تھا، یہاں اسرائیل ہے؛ وہاں حسینؑ تھے، یہاں ہزاروں مظلوم فلسطینی ہیں — لیکن جذبہ، صبر اور استقامت وہی ہے۔
حضرت امام حسینؑ کا ایک قول ہے:> ” اگر تم دین نہیں رکھتے تو کم از کم آزاد مرد بنو۔” (بحارالانوار، جلد ۴۴)
آج غزہ کے نہتے مگر غیرتمند لوگ اسی آزادی، عزت اور مزاحمت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ وہ اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر اس فلسفے کو زندہ رکھے ہوئے ہیں جسے ہم نے صرف مجلسوں اور نوحوں تک محدود کر دیا ہے۔
امتِ مسلمہ کے لیے یہ لمحۂ فکریہ ہے۔ اگر ہم نے واقعی کربلا سے سبق سیکھا ہوتا تو غزہ کی سرزمین پر ظلم اس قدر نہ بڑھتا۔ اگر ہم نے صرف ماتم کیا اور فلسفۂ کربلا کو نہ سمجھا، تو پھر آج ہم یزیدِ وقت کے سامنے کیوں خاموش ہیں؟
کربلا ہمیں سکھاتی ہے کہ حق کے لیے کھڑے ہونا فرض ہے، چاہے ہم تعداد میں کم ہوں، چاہے قربانی دینی پڑے۔ فلسطین کے معصوم بچوں کی چیخیں، ماؤں کی آہیں، اور شہداء کی قبریں آج ہم سے سوال کر رہی ہیں:
"تم کون ہو؟ حسینؑ کے ماننے والے یا یزید کی خاموشی کے وارث؟”
ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا ہم ظلم کے خلاف کلمۂ حق بلند کریں گے یا صرف تاریخ کو یاد کر کے خود کو زندہ ضمیر سمجھنے کا فریب دیتے رہیں گے؟ کیا ہم کربلا کی پیروی کریں گے یا یزیدِ وقت کی خاموش تائید؟








