امت مسلمہ کا اتحاد وہ خواب ہے جس کی تعبیر آج تک حاصل نہ ہو سکی۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ مسلمان، جو کبھی "امت واحدہ” کا عملی نمونہ تھے، آج انتشار اور تفریق کا شکار ہیں۔ دنیا کے تقریباً دو ارب مسلمانوں کی موجودگی کے باوجود وہ عالمی سطح پر اپنی طاقت اور وقار کھو بیٹھے ہیں۔
فرقہ واریت امت مسلمہ کی سب سے بڑی کمزوری بن چکی ہے۔ اسلامی ممالک مختلف فرقوں اور مسالک کے تضادات میں الجھ کر رہ گئے ہیں۔ شیعہ سنی اختلافات ہوں یا دیگر فقہی تنازعات، یہ تنازعات صرف مساجد اور مدارس تک محدود نہیں رہے بلکہ سیاست، معیشت، اور سماجی تعلقات میں بھی سرایت کر چکے ہیں۔ ان اختلافات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بیرونی طاقتوں نے اسلامی دنیا کو مزید تقسیم کر دیا ہے۔
علاقائی سیاست اور خودغرضی بھی اتحاد کی راہ میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ کے تیل کے ذخائر، افریقہ کے معدنی وسائل، اور ایشیا کے اسٹریٹجک محل وقوع نے اسلامی دنیا کو عالمی طاقتوں کے لیے ایک میدان جنگ بنا دیا ہے۔ اسلامی ممالک کے رہنما اپنی کرسی اور اقتدار کو بچانے کے لیے بیرونی طاقتوں کے زیر سایہ کام کر رہے ہیں۔ وہ امت کے اجتماعی مفادات کو نظر انداز کرتے ہوئے ذاتی اور علاقائی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں۔
تعلیم اور قیادت کی کمی نے مسلمانوں کو مزید کمزور کر دیا ہے۔ امت مسلمہ نے اپنی علمی وراثت کو فراموش کر دیا ہے۔ جدید تعلیم اور تحقیق میں پیچھے رہ جانے کے باعث مسلمان نہ تو عالمی مسائل کا حل پیش کر سکتے ہیں اور نہ ہی اپنے مسائل کو حل کر پاتے ہیں۔ آج اسلامی دنیا کو ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو فرقہ واریت، تعصب، اور خودغرضی سے بالاتر ہو کر امت کے مشترکہ مفادات کے لیے کام کرے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
"وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا”
(ترجمہ: اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقے میں نہ پڑو۔)
یہ وہ اصول ہے جو امت کو زوال سے نکال سکتا ہے۔ لیکن اس اصول پر عمل کرنے کے لیے قربانی، ایثار اور خلوصِ نیت کی ضرورت ہے۔
امت مسلمہ کا اتحاد ممکن ہے، لیکن اس کے لیے حقیقی اقدامات کی ضرورت ہے۔ جب تک مسلمان اپنی ترجیحات کو درست نہیں کرتے، فرقہ واریت اور تعصب کو ختم نہیں کرتے، اور عالمی سیاست میں اپنی حیثیت کو مضبوط نہیں کرتے، اتحاد کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ یہ وقت ہے کہ امت مسلمہ اپنی کمزوریوں کو تسلیم کرے، ان سے سبق لے، اور عملی اقدامات کے ذریعے اپنے کھوئے ہوئے وقار کو بحال کرے۔
یہ چیلنج مشکل ضرور ہے، لیکن ناممکن نہیں۔ امت مسلمہ کا اتحاد صرف ایک خواب نہیں، بلکہ ایک ضرورت ہے، جو اگر حاصل ہو جائے تو مسلمانوں کی تقدیر بدل سکتی ہے۔