تبصرہِ کتاب : انڈیڈ فینٹسی
از قلم : ایمان کشمیری لاہور
انڈیڈ فینٹسی ، عابد شاہین کے خوبصورت الفاظ سے مزین انگلش نظموں پر مشتمل ایک ایسی کتاب ہے جو تصوف کے بیان سے بھر پور ہے ۔۔۔ ٹیکنالوجی کے اس پرفتن دور میں جہاں ہر کوئی بے راہ روی کا شکار ہے ، عابد شاہین کی یہ شاہکار کتاب لوگوں خاص کر نوجوانوں کےلیے راہنمائی اور رب تک پہنچنے کی راہ فراہم کرتی ہے ۔۔۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ نوجوان مصنف مقبوضہ کشمیر کے رہنے والے اور اپنی عمر کے اعتبار سے ابھی صرف انیس برس کے ہیں ، مگر قابلیت اور ذہنی استعداد میں بڑوں بڑوں کو مات دیتے نظر آتے ہیں ۔۔۔
انڈیڈ فینٹسی کی نظموں کا مطالعہ کرنے بعد معلوم ہوتا ہے کہ شاعر نے کس قدر خوبصورتی سے اپنے اعلی خیالات کو دلکش پیرائے میں صفحہ قرطاس پر منتقل کیا ہے ۔۔۔ تصورات اور الفاظ کا استعمال اس قدر عمدہ ، دلکش اور سلیس ہے کہ مطالعہ کرنے والا داد دِیے بغیر نہیں رہ سکتا۔۔۔ خیالات کو ہر قسم کے تصنع، بناوٹ اور پیچیدگی سے پاک رکھا گیا ہے۔۔۔کلام ایسا عمدہ ، صاف اور عام فہم ہے کہ اسے اعلی سے لے کر ادنٰی تک ہر طبقہ اور ہر درجہ کے لوگ سمجھ سکتے ہیں۔۔۔
حالات و واقعات کا بیان اصلیت اور راستی سے مزین ، ہر قسم کے جھوٹ اور خود آرائشی سے پاک صاف ہے۔۔۔ شاعری ایسے بےساختہ اور مؤثر پیرائے میں بیان کی گئی کہ معلوم ہوتا ہے شاعر نے مضمون اپنے ارادے سے نہیں باندھا بلکہ مضمون نے شاعر کو مجبوراً اپنے تئیں بندھوایا ہے ۔۔۔
شاعری میں مناظرِ فطرت کے بیان کے ساتھ ساتھ فطرتِ انسانی اور نفسیاتِ انسانی بھی غالب نظر آتی ہے ۔۔۔ کمسن شاعر عابد شاہین کی صحت پر کشمیر کے تکلیف دہ ماحول کا گہرا اثر ہے ، وادئ پُر آشوب میں رہنے اور ہر لمحہ اپنے ارد گرد آگ و خون کا کھیل دیکھنے کے بعد حساسیت اُن کے مزاج کا خاصہ بن گئی ہے ، بس یہی وجہ ہے کہ اُن کی شاعری میں درد کا عنصر غالب نظر آتا ہے ۔۔۔ ہاں درد کا بیان تو ضرور ہے مگر مایوسی کہیں نہیں ملتی ۔۔۔ وہ نظم کا آغاز بڑے درد سے کرتے ہیں مگر اختتام تک پہنچتے پہنچتے قاری کو ایک نئی اُمید دے جاتے ہیں ۔۔۔
عابد شاہین کی شاعری سے جو سبق مجھے ملا وہ یہ ہے کہ دکھ بُرے نہیں ہوتے ، یہی تو رب سے لو لگانے اور کچھ کر کے دکھانے کا ذریعہ ہیں ۔۔۔ خوشیوں میں تو انسان سب بھول جاتا ہے ، اکثر اوقات تو رب کو بھی یاد نہیں رکھتا مگر یہ دُکھ اور درد ہی تو ہیں جو اُسے رب سے جوڑے رکھتے ہیں ۔۔۔ میں سمجھتی ہوں کمسن شاعر کی صلاحیتوں کے پیچھے بھی یہی درد مضمر ہیں جنھوں نے اُسے عروج کی راہ پر ڈال دیا ہے ۔۔۔ مجھے یقین ہے کہ اللہ رب العزت ہمارے کشمیری شاعر کی صلاحیتوں کے نکھار میں اضافہ فرمائیں گے اور وہ جلد ہی شہرت کے آسمان پر پرواز کریں گے ۔۔۔۔ ان شاءاللہ تعالی
کتنا کمسن ، خُوبرُو یہ شاعرِ کشمیر ہے
ہاں بڑھا دی تُو نے تو الفاظ کی توقیر ہے
داد دیتی ہوں ، بڑا ہی دلنشیں انداز ہے
تیرے تو الفاظ میں ایماں بھری تاثیر ہے








