مزید دیکھیں

مقبول

قدیم چولستان : سرائیکی تہذیب کے منفرد رنگ،چوتھی قسط

قدیم چولستان : سرائیکی تہذیب کے منفرد رنگ
تحقیق و تحریر:ڈاکٹر محمد الطاف ڈاھر جلالوی
altafkhandahir@gmail.com
اس مضمون میں قدیم چولستان کی وادی ہاکڑہ اور سرائیکی تہذیب کی منفرد جھلکیوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ چار اقساط پر مشتمل اس سلسلے میں سرائیکی ثقافت کی گہرائیوں،رسوم و رواج اور تاریخی ورثے پر روشنی ڈالی گئی ۔
اس سلسلہ کی چوتھی اور آخری قسط

چولستان کے چیلنجز،ماحولیاتی مسائل اور ثقافتی بقا
سرسبز گرین پاکستان کا حسین خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے روہی چولستان کی انسانی،حیوانی اور نباتاتی خوشحالی اور تعمیر نو سے سرائیکی مقامی آبادی معاشی ترقی حاصل کرے گی۔چولستانی دستکاریوں میں اونٹ کی کھال سے تیار کردہ اشیاء،کھجور کے پتوں کی بُنائی سے خوبصورت قابل استعمال گھریلو چیزیں اور ریت سے بنے گلدان شامل ہیں۔مقامی فنون میں چراغوں پر مصوری اور شطرنج کے بورڈز خاص اہمیت رکھتے ہیں۔پانی کی تقسیم اور اونٹنیوں کی گود بھرائی جیسے منفرد تہوار اس علاقے کے عوامی اتحاد اور ثقافت کی عکاسی کرتے ہیں۔

سرائیکی سابق خوشحال ریاست بہاولپور کا خوبصورت روہی چولستان کا رقبہ تین اضلاع بہاول نگر،بہاولپور اور رحیم یار خان موجود بہاولپور ڈویژن پر مشتمل ہے۔روہی چولستان کا کل رقبہ تقریبا ننانوے لاکھ 9900000 میں قابل استعمال رقبہ 25 فیصد ہے۔باقی 75 فیصد رقبہ ناقابل کاشت ہے۔صحرائے چولستان کو دو بڑے حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔چھوٹی روہی اور بڑی روہی کے نام سے جانا جاتاہے۔

سرسبز گرین پاکستان اور خوشحال چولستان کے لیے مقامی سرائیکی روہیلوں کی مستقل دیرپا رہائش اور قدرتی وسائل و اثاثہ جات کی حفاظت کے لیے مستقل بنیادوں پر حکمت عملی بنانا ہوگی۔چند گزارشات سے روہی چولستان دھرتی کو سرسبز قابل استعمال بنایا جا سکتا ہے۔

1۔بڑی روہی سے چھوٹی روہی کے درمیان سڑکوں کا جال بچھانا ہوگا۔مقامی سطح پر ثقافتی ورثے کے تحفظ کیلئے اقدامات اٹھانا ہوں گے ۔
2۔مقامی سرائیکی روہیلوں کو مالکانہ حقوق دینا ہوگے۔
3۔فوڈز انڈسٹری قائم کرنا ہوگی۔
ویٹرنری شفاخانہ ویکسین کی بروقت فراہمی یقینی بنانا ہوگی۔
4۔چکنی مٹی والے ڈاہروں پر نئے پختہ ٹوبھے تعمیر کرنا ہوں گے۔
5۔چولستان کا زیر زمین کڑوا سمندری پانی میں ماہی پروری کو فروغ دینا ہوگا۔

6۔قیمتی جڑی بوٹیوں اور معدنیات کے وسائل سے فوائد حاصل کرنے کے لیے چولستان ترقیاتی ادارہ، اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور چولستان ریسرچ ادارہ، بارانی ریسرچ سنٹر،ایگری ریسرچ سنٹر سب کی ایک مشترکہ ریسرچ ورک کونسل قائم کرنا ہوگی۔
7۔سبز چارہ کے لیے اور حیوانات کی بقاء کے لیے جدید ٹیکنالوجی ادارے قائم کرنا ہوں گے۔
8۔موسم حریف میں جوار، باجرہ،گوار،تل،سوہانجناہ،ماش دال،پیاز،مرچ،بیر،پیلھوں،پنڈ کھجور اسپغول کو جبکہ موسم ربیع میں سرسوں،رایا،توڑی کی فصلوں کو فروغ دیا جائے تاکہ زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو۔

9۔سیلاب کے دوران پانی کی رسائی کو چولستان تک پہنچاکر پانی کے میٹھے ذرائع میں بے پناہ اضافہ کیا جاسکتا ہے۔
10۔خشک سالی کے دوران ٹینکرز کے ذریعے پانی کی بروقت فراہمی سے روہیلوں اور ان کے جانوروں کی زندگی کو بچایا جا سکتا ہے۔
11۔سخت دھوپ سے سولر انرجی چولستان کے وسیع میدانوں سے حاصل کی جاسکتی ہے۔
12۔چولستانی روہی کی ریت سے بہترین سلیکا حاصل کیا جاسکتا ہے۔

13۔چھ سے سات ہزار سال قدیم تہذیب وتمدن وادی ھاکڑہ سرسوتی کے آثار قدیمہ سے قیمتی خزانوں سے مالامال نوادرات کو حاصل کرکے اقوام متحدہ اداروں کی توجہ اور معاشی امداد حاصل کی جاسکتی ہے۔
14۔قلعہ ڈیراور،گنویری والا،پتن منارہ،دیگر پرانے گمشدہ محلوں اور قلعوں کی تزئین و آرائش سے سیاحت کو فروغ دے کر زرمبادلہ میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔

خواجہ فرید سئیں کی خوبصورت روہی کی خوشحالی کے لئے ٹوبھوں کی تعمیر نو کی شدید خواہش دراصل سرائیکی وسیب میں معاشی ترقی کا خواب حقیقت کا ادراک نئے صوبے کا قیام ہے۔

پہلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
قدیم چولستان، سرائیکی تہذیب کے منفرد رنگ
دوسری قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
قدیم چولستان، سرائیکی تہذیب کے منفرد رنگ
تیسری قسط قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
قدیم چولستان، سرائیکی تہذیب کے منفرد رنگ
سرائیکی علاقے کی معاشی خوشحالی پاکستان کی بقائے معیشت ہے۔دیوان فرید سرائیکی دراصل سرائیکی خطے راوا،تھل دمان پہاڑ اور روحانی روہی چولستان سے بھریل لسانی و سماجی ورثے کا خوبصورت خزانہ ہے۔سرائیکی قوم کے صحیفے کی حیثیت رکھتا ہے۔روہی سرائیکی قوم کے لیے پریم نگر ہے۔کلام فرید میں حسین رہتل ثقافتی رنگوں کے منفرد نمونے ملاحظہ فرمائیں۔

ٹوبھا کھٹا ڈے سوہنی جا تاڑ تے
اوجھا نہ ہووے ساری ماڑ تے

سوہنے یار باجھوں میڈی نئیں سردی
تانگھ آوے ودھدی، سک آوے چڑھدی

پورب للہاوے تے پتالوں پانی آوے

کیسر بھنڑی چولی چنری
ول ول مینہہ پساوے
پورب ماڑ ڈکھن دے بادل
کوئی آوے کوئی جاوے

روہی رنگ رنگیلی
چک کھپ ہار حمیلاں پاوے
بوٹے بوٹے گھنڈ سہاگوں
گیت پرم دے گاوے

پردیسی یارا وا پورب دی گھلے
ساون مینہ برسات دی واری
پھوگ پھلی کھپ پھلے
گاجاں گجکن بجلیاں لسکن
ذوقوں دلڑی چلے
چتر سہاگ دا جھلے
جئے تیئں پانی پلہر نہ کھٹسی
کون بھلا سندھ جلے

درد فرید ہمیشہ ہووے
سارے پاپ دوئی دے دھووے

تھل چترانگ اندر میں سسی
بیلیں بیٹیں ہیر

ساون مینگھ ملہاراں
سہجوں تھلڑیں مال نہ ماوے
پیسوں پانی دھاروں دھاری
ڈیسوں جھوک تراوے

بدلے دردوں روون
بجلی اکھ مارے مسکاوے

کن من کنیاں رم رجھم بادل
بارش برکے برکے وو!
کر یار اساں ول آون دی
اج سہج کنوں اکھ پھرکے وو!

پریم نگر ہے دیس تمہارا
پھرتے کہاں اداسی رے

چولستان روہی کی شاندار رنگ رنگیلی تہذیبی منفرد رسمیں اور اشیاء نہ صرف ان علاقوں کی ثقافتی پہچان ہیں۔بلکہ قدیم سرائیکی ڈیراوری باسیوں کی تخلیقی اختراعات،صلاحیتوں،خوبیوں،صبر و استقامت،امن ومحبت،الگ شناخت کی اعلی مثالیں بھی ہیں۔ان قدیم رسوم و رواج،ریت و روایات اور دستکاریوں کو محفوظ بنانے اور فروغ دینے سے پاکستان کے ثقافتی ورثے کو مضبوطی ملے گی اور فنون لطیفہ کے ہیرٹیج سٹی میں بھی بلند مقام حاصل ہوگا.

اقوام متحدہ کے آرٹ اینڈ کلچر،آرکیالوجی اداروں کو سرائیکی وسیب کی چھ ہزار سال قدیم تہذیب وتمدن وادی ھاکڑہ سرسوتی کے اہم ثقافتی ورثے کے پاسبان شہر گنویری والا جو وادی سندھ تہذیب وتمدن کے ہڑپہ و موہنجوداڑو کے درمیان کا شہر ہے۔یہاں میوزیم قائم کرنے سے روہی کے قلعہ ڈیراور سمیت قلعوں سے جڑی ثقافتی ورثے کی حفاظت ممکن ہوگی۔نئی نسل اپنے قومی ورثے سے محروم ہونے سے بچ جائے گی۔

آئے مست ڈیہاڑے ساون دے
وہ ساون دے من بھاون دے
بدلے پورب ماڑ ڈکھن دے
کجلے بھورے سو سو ونڑ دے
چارے طرفوں زور پونڑ دے
سارے جوڑ وساونڑ دے
(خواجہ فرید)

ڈاکٹر محمد الطاف ڈاھر جلالوی
ڈاکٹر محمد الطاف ڈاھر جلالوی
ڈاکٹر محمد الطاف ڈاھر جلالوی قومی و بین الاقوامی محقق اور نقاد ہیں۔ ان کے تحقیقی مضامین مختلف اخبارات، جرائد اور ایچ ای سی ریسرچ جرنلز میں شائع ہوتے ہیں۔ وہ گورنمنٹ صادق عباس گریجویٹ کالج، ڈیرہ نواب صاحب میں بطور صدر شعبہ سرائیکی ادب، تاریخ، تہذیب و ثقافت اور تصوف کی ترویج میں مصروف ہیں۔