یونیورسٹی اعلیٰ تعلیمی ادارہ کیا عمل بھی اعلیٰ—— از ساجدہ بٹ
یونیورسٹی وہ ادارہ ہے جہاں ہمارے نوجوان اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے جاتے ہیں ۔
یعنی وہ تعلیم بھی اسے کہہ سکتے ہیں کہ جس سے افراد اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکیں ۔جہاں ہماری نوجوان نسل اپنے اعلیٰ کردار کی تعمیر کر رہی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یونیورسٹی اعلیٰ تعلیم کا ادارہ ہے کیا عمل بھی اعلیٰ ؟ میں سب سے پہلے اپنے پاکستان کے تعلیمی اداروں کی بات کرنا چاہوں گی ۔۔جو کہ ایک مسلم ملک ہے یہاں کس قدر اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہیں۔
ہم لوگوں نے مغربی تعلیم کے ساتھ ساتھ مغربی کلچر کو اپنایا اور پھر ترقی کے نام پر مخلوط نظام تعلیم کو فروغ دیا۔جس کا مطلب کے لڑکے اور لڑکیاں اکھٹے تعلیم حاصل کریں ۔یعنی اب اس طرح ہی ہم ترقی کر سکتے ہیں۔
اس ترقی نے ہمارے معاشرے کی نوجوان نسل کے کردار کو بگاڑ کر رکھ دیا۔وہاں تعلیمی ترقی کے ساتھ ساتھ دوستیاں ترقی کرنے لگیں۔۔ان دوستیوں نے ہماری بیٹیوں کے سر سے چادر چھین لی۔پھر رہی سہی کسر نت نئے فیشن نے نکال دی۔شرم تو آنکھوں میں ہونی چاہیئے۔اس تعلیم نے پھر ہمیں بے پردہ کر دیا۔یہ بات تو چلو ترقی کی ہوئی طالب علموں کی ہوئی ۔
مخلوط تعلیم سے ہوتے ہوئے پھر فیشن کی طرف سفر ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔اب امتحانات کی کیا صورت حال ہے ؟؟؟یونیورسٹی میں سمسٹر سسٹم نے تعلیم کے معیار کو بلکل پسے پشت ڈال دیا ہے۔آج کل ڈگری حاصل کرنا مشکل کام کہاں۔۔؟؟؟؟آج کل تو پیسے سے تعلیم حاصل ہوتی ہے ۔اور اُس سے بھی مزے کی بات محنت بھی نہیں کرنی پڑتی پیسہ دو اور ڈگری آپ کے ہاتھ میں ہے۔
ارے واہ سچ میں ترقی کا دور ہے۔یونیورسٹی میں داخلہ لو کلاس بیشک اٹینڈ نا کرو چونکہ بڑے اونچے خاندان پیسے والے بڑے عہدے دار کے بیٹے ہو / بیٹی ہو ۔کوئی مسلہ نہیں نمبر لگ جائیں گے استاد سے سلام دعا اچھی ہے فکر نا کرو نمبر لگ جائیں گے ۔نمبر تو استاد کے ہاتھ میں ہے تھوڑی بہت چاہ پلوسی کرو نمبر لگ جائیں گے۔
ارے ٹھہریئے ….
روکیے ۔۔۔
ذرا سوچیے ۔۔۔
وہ غریب کا بچہ جس نے دِن رات محنت کی ہاں لیکن نا تو پیسہ اُس کے پاس نا سفارش نا بڑا عہدہ رکھنے والا اُس کے خاندان میں سے کوئی ۔۔۔
شاید وہ حالات بھی بیان نا کر سکتا ہو۔اُسے کوئی پوچھنے والا نہیں ہو گا اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس کی جگہ کسی مالدار بیٹے کو دے دی جاتی ہے وہ داخلہ بھی نہیں لے سکتا۔
میرا سوال ہے
یونیورسٹی میں یہ صورت حال ہے تو اعلیٰ تعلیم کہاں ؟؟؟
ملک ترقی کیسے کرے گا؟؟؟
جس کی بنیاد ہی غلط رکھی گئی ہے وہ کیسے عمارت کو قائم رکھ سکتا ہے ؟؟؟؟
سفارشی نظام ملکی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ۔۔
میرے خیال میں سفارشی نظام نے ہمارے معاشرے کو کمزور کر دیا ہم آگے جانے کی بجائے پیچھے سفر کر رہے ہیں۔
جب حکومت نا اہل لوگوں کے سپرد کر دی جائے تو پھر ترقی کی خواہش ہمیں دل سے نکال دینی چاہیے ۔
اور ہمارے معاشرے میں تو یہ سب بہت عروج پر ہے یعنی ہم اعلیٰ تعلیم کے نام پر خود کو دھوکہ دے رہے ہیں۔
یاد رکھیے ۔۔۔
یہ سسٹم ہمیں خود بدلنا ہو گا ورنہ آنے والا دور جیسا بھی ہوا اس کے ذمےدار ہم خود ہوں گے۔
اب اگر یونیورسٹی کے سٹاف کی بات کی جائے تو سونے پے سہاگا۔۔۔
کسی عام بندے کی طرف تو توجہ دینا محال ہے ہر چھوٹے سے چھوٹے کام کے لیے سفارش کی ضرورت ہے۔
حتٰی کہ کسی فورم پر مہر لگانی ہے تب بھی سفارش کی ضرورت ہے۔
آخر کیوں ؟؟؟
کسی غریب کا کب احترام کرتی ہے ، یہ دنیا لباس دیکھ کر سلام کرتی ہے
کیا جس کام کے لیے آپ کو ملازمت دی ہے کیا اُس میں کوئی شق ایسی بھی تھی جس میں لکھا ہو کہ ہر کام کے لیے آپ کو سفارش لانا لازمی قرار دیا گیا ہے
اگر ایسا نہیں ہے تو ایسا کرتے کیوں ہیں ۔۔
یاد رکھیے کسی غریب کا حق کھانے سے ڈرو ۔۔
رشوت سے ڈرو ۔
خدا کا خوف کرو۔
قبر کے عذاب سے ڈرو۔
یاد رکھنا ۔۔۔
یہ بڑے بڑے عہدے قیامت کے دن کام نہیں آئیں گے۔وہاں تو صرف اور صرف ہمارے عمل کا حساب ہو گا۔
پھر جو اب کر رہیں ہیں کیا اللہ کے حضور حاضر ہونے کے قابل ہے ؟؟
خدارا صرف وہ کریں جس کے آپ اہل ہیں دوسروں کا حق چھین لینے والوں سے جلد حساب لیا جائیں گا
اگر ملک کو ترقی دینا چاہتے ہیں تو پہلے اپنے کردار کو ترقی دیں۔۔
تحریر از ساجدہ بٹ