اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی صدارت ہمارے پڑوسی ملک بھارت کے حصے میں ایک ماہ کے لیے آچکی ہے ۔ بھارت جو تقسیم برصغیر کے وقت سے ہی غاصبانہ و جارحانہ رویہ اپناے ہوے ہے اسے اس قدر حساس ادارے کی سربراہی ملنا پاکستان و دیگر ممالک کے لیے تشویش ناک ہے ۔ پاکستان اس وقت افغانستان میں امن قائم کرنے کی کوششوں میں مصروف عمل ہے ۔ اور بھارت امن کو سبوتاژ کرنے کی سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہے ۔ ذرائع کے مطابق افغان فضائیہ کے زیراستعمال طیارے بھارتی ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان کے پائلٹ بھی بھارتی ہی ہوں۔ اور پھر مقبوضہ کشمیر میں جو خون کی ہولی وہ کھیل رہا ہے وہ اپنی جگہ سوالیہ نشان ہے ۔ سلامتی کونسل کی ہی منظور کردہ قراددیں بھارت نے ردی کی ٹوکری میں پھینک رکھی ہیں ۔ سلامتی کونسل کی سربراہی ملنے کا معاملہ یہ ہے کہ انگریزی حروف تہجی کے لحاظ سے ہر رکن ملک ایک ماہ کے لیے سلامتی کونسل کی صدارت سنبھالتا ہے ۔ بھارت کی سربراہی کے موقع پر خارجہ پاکستان کے ترجمان زاہد حفیظ چودھری نے کہا کہ ’’امید ہے بھارت سلامتی کونسل کی صدارت کی اقدار کی پاسداری اور قواعد کا احترام کرے گا۔ بھارت کو مقبوضہ جموں و کشمیر کے مسئلے پر سلامتی کونسل کی منظور کردہ قراردادوں کی ذمہ داری یاد کرائیں گے۔‘‘ دوسری طرف بھارتی مستقل مندوب تیرومورتی نے سلامتی کونسل کی صدارت سنبھالنے کے بعد اپنی پہلی پریس کانفرنس میں کہا کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے لیکن ان کی حکومت پاکستان کے ساتھ دو طرفہ مسائل کو حل کرنے ے لیے بات کرنے کو تیار ہے ۔ ہم دنیا کو بتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ میں سمجھتا ہوں کہ بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ ہے ، لہذا بھارت کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کی جائے ۔ انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 370 میں کسی بھی قسم کی تبدیلی یا ترمیم آئین کی دیگر شقوں کی طرح بھارتی پارلیمنٹ کا واحد اختیار ہے ۔ بھارتی مندوب شاید بھول رہے ہیں کہ جس فورم کی صدارت ان کے حصے میں آئی ہے اسی کی قراردادیں کشمیر کے متعلق بڑی واضح الفاظ میں موجود ہیں ۔ پاکستان نے مذکورہ بالا بیان کو مسترد کرتے ہوے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے بھارتی سفیر کے بیان کو من گھڑت قرار دیتے ہوئے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ کشمیر دونوں ممالک کے درمیان ایک متنازعہ مسئلہ ہے جسے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا ہے ، بھارت حقائق کو مسخ کر کے اقوام متحدہ کی قرادادوں کو جھٹلا نہیں سکتا، پاکستان اور بھارت کے درمیان بات چیت اسی وقت ہو سکتی ہے جب وہ 5 اگست 2019ء کے اقدام کو واپس نہیں لیتا۔ جموں و کشمیر بھارت کا لازمی حصہ نہیں۔ سلامتی کونسل کی قراردادیں جن میں رائے شماری کا مطالبہ کیا گیا ہے نافذ العمل ہیں اور اسے صرف سلامتی کونسل ہی منسوخ کر سکتی ہے ۔ 5 اگست 2019 کے بھارت کے یکطرفہ اور غیر قانونی اقدامات سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 91 اور نمبر 122 کی کھلم کھلا خلاف ورزی اوربھارت کا یہ اقدام کالعدم ہے ۔
اقوام متحدہ کی قراردادوں کا جس طرح سے بھارت نے مذاق اڑایا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرکے بدترین کرفیو نافذ کررکھا ہے ۔ مقبوضہ کشمیر میں آبادی سے زائد بھارت نے فوج تعینات کررکھی ہے اور اسے دنیا کی سب سے بڑی جیل میں تبدیل کیا ہوا ہے ۔ بھارت میں مسلمانوں سمیت دیگر اقوام کے ساتھ جو سلوک ہورہا ہے وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے ۔ گاؤماتا کی حرمت کے نام پر کہیں مسلمانوں کو تختہ دار پر لٹکایا جا رہا ہے تو کہیں مسلمان عورتوں کو سرعام جنسی تشدد کے ساتھ سسکتے ہوے مرنے کو پھینکا جارہا ہے ۔ کہیں عیسائیوں پر عرصہ حیات تنگ کیا ہوا ہے تو کہیں کسانوں پر نام نہاد قوانین کا نفاذ کرکے انھیں بغاوت پر ابھارا جارہا ہے ۔ اس سارے ظلم و تشدد کے بعد اگر کوئی بھارتی مسلمان ، عیسائی ، سکھ یا پھر کوئی اور جدوجہد کا آغاز کرتا ہے یا پھر مسلح جتھا بنالیتا ہے تو اسے پاکستان کے کھاتے میں ڈال کر دہشت گردی کا راگ الاپنا شروع ہوجاتا ہے ۔ ان حالات میں جب بھارت کے اپنے ملک کی حالت خانہ جنگی کی سی ہے تو سلامتی کونسل کی سربراہی دینا "بندر کے ہاتھ ماچس” دینے کے مترادف ہے ۔ لکھ رکھیے کہ بھارت کوشش کرے گا کہ وہ ایک ماہ میں پاکستان کے لیے مزید مشکلات کھڑی کرے ۔ سلامتی کونسل کی قراردادوں کو پیروں تلے روند کر کشمیریوں کی نسل کشی کرنے والا صدر کی کرسی پر براجمان ہوچکا ہے