وبائیں قحط زلزلے لپک رہے ہیں پے بہ پے
یہ کس کا اقتدار ہے زمیں سے آسمان تک
سیّد اصغر حسین نام اور راغبؔ تخلص ہے۔ 27 مارچ 1918ء کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ آبائی وطن مرادآباد ہے۔ بی اے تک تعلیم حاصل کرنے کے علاوہ آپ نے السنہ شرقیہ کے کئی امتحان پاس کیے۔طبیہ کالج، دہلی سے طب کی سند بھی حاصل کی، مگرسرکاری ملازمت کو ذریعۂ معاش بنایا۔تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان آگئے۔ ان کی شعری تربیت میں مولانا ظفر خاں کا ہاتھ ہے۔
انھوں نے جملہ اصناف سخن میں طبع آزمائی کی ہے۔ رباعی آپ کی سب سے زیادہ پسندیدہ صنف سخن ہے۔ تاریخ گوئی میں ان کو خاص ملکہ حاصل ہے۔ فی البدیہہ اشعار کہنے میں انھیں یدطولیٰ حاصل ہے۔18 جنوری 2011ء کو راغبؔ مراد آبادی انتقال کر گئے ۔
ان کی تصانیف کے چند نام یہ ہیں: ’ساغر صدرنگ‘، ’عزم و ایثار ‘، ’ضیائے سخن‘، ’رگِ گفتار‘، ’مدحتِ خیر البشر‘، ’مکالماتِ جوش و راغب ‘، ’ہمارا کشمیر‘، ’محنت کی ریت‘، ’بحضور خاتم الانبیا‘ (رباعیات)۔ حکومت پاکستان نے ا ن کی ادبی خدمات کے اعتراف میں انھیں ’’ تمغۂ حسن کارکردگی ‘‘ سے نوازا۔ بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)، محمد شمس الحق، صفحہ:88
غزل
۔۔۔۔۔
عجیب انتشار ہے زمیں سے آسمان تک
غبار ہی غبار ہے زمیں سے آسمان تک
وبائیں قحط زلزلے لپک رہے ہیں پے بہ پے
یہ کس کا اقتدار ہے زمیں سے آسمان تک
بساط خاک بھی تپاں خلا بھی ہے دھواں دھواں
بس اک عذاب نار ہے زمیں سے آسمان تک
گرفت پنجۂ فنا میں خستہ حال و خوں چکاں
حیات مستعار ہے زمیں سے آسمان تک
فغان و اشک و آہ کا جگر گداز سلسلہ
بلطف کردگار ہے زمیں سے آسمان تک
متاع جبر زندگی ہمیں بھی جس نے کی عطا
اسی کا اختیار ہے زمیں سے آسمان تک
فراز عرش کے مکیں شکستہ دل ہمیں نہیں
ہر ایک بے قرار ہے زمیں سے آسمان تک
غزل
۔۔۔۔۔
موج نسیم صبح نہ جوش نمو سے تھا
جو پھول سرخ رو تھا خزاں کے لہو سے تھا
تیرے سکوت نے اسے ویران کر دیا
دل باغ باغ تھا تو تری گفتگو سے تھا
اب دل کے رہ گزار میں وہ چاندنی کہاں
اپنا بھی ربط و ضبط کسی ماہ رو سے تھا
مدت ہوئی کہ دل کا وہ گلشن اجڑ گیا
شاداب جو ترے نفس مشکبو سے تھا
خواب و خیال ہیں وہ نشاط آفرینیاں
رقص بہار دل میں تری آرزو سے تھا
سوئے ادب کہوں کہ اسے بے تکلفی
راغبؔ بجائے آپ مخاطب وہ تو سے تھا