احسان دانش
اردو کے نامور شاعر، ادیب اور ماہر لسانیات احسان دانش 10؍فروری1914ء میں کاندھلہ، مظفر نگر (یوپی) میں پیدا ہوئے تھے۔ والدین کی غربت کی وجہ سے چوتھی جماعت سے آگے نہ پڑھ سکے تاہم اپنے طور پر اردو، فارسی اور عربی زبان کا مطالعہ کیا، تلاش معاش میں لاہور آگئے اور پھر تمام عمر یہیں گزاری۔ یہاں انھوں نے مزدوری، چوکی داری، چپراسی اور باغ بانی کے فرائض انجام دیے۔ فرصت کے اوقات میں کتابوں کا مطالعہ کرتے تھے۔
دوران مطالعہ انھیں شعروسخن سے دل چسپی ہوگئی۔ تاجور نجیب آبادی سے اصلاح لینے لگے۔جب کچھ رقم جمع ہوگئی تو ’’مکتبۂ دانش‘‘ کے نام سے اپنا ذاتی کتب خانہ قائم کیا۔ ان کا سرمایۂ شعری زیادہ تر نظموں پر مشتمل ہے۔ ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں انھیں ’’ستارۂ امتیاز‘‘ کے خطاب سے حکومت نے نوازا ۔ احسان دانش کو مذہب سے گہرا لگاؤ تھا۔ انھیں حج بیت اللہ اور روضۂ اقدس پر حاضری کی سعادت نصیب ہوئی 22 مارچ1982ء کو لاہور میں انتقال کرگئے۔
دانش میں خوف مرگ سے مطلق ہوں بے نیاز
میں جانتا ہوں موت ہے سنت حضورؐ کی
اب کے یوں دل کو سزا دی ہم نے
اس کی ہر بات بھلا دی ہم نے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یوں نہ مل مجھ سے خفا ہو جیسے
ساتھ چل موج صبا ہو جیسے
لوگ یوں دیکھ کے ہنس دیتے ہیں
تو مجھ بھول گیا ہو جیسے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زندگی تجھ سے شکایت ہی کہاں تھی لیکن
تیری تلخی میرے لہجے سے عیاں تھی لیکن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نظر فریب کھا گئی تو کیا ہو گا
حیات موت سے ٹکرا گئی تو کیا ہو گا
غم حیات سے ہے بے شک خودکشی آساں
مگر جو موت بھی شرما گئی تو کیا ہو گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وفا کا عہد تھا دل کو سنبھالنے کے لیے
وہ ہنس پڑے مجھے مشکل میں ڈالنے کے لیے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احسانؔ ہے بے سود گلہ ان کی جفا کا
چاہا تھا انھیں ہم نے خطا وار ہمی تھے
….
رعنائی کونین سے بے زار ہمیں تھے
احسان دانش
رعنائی کونین سے بے زار ہمیں تھے
ہم تھے ترے جلووں کے طلب گار ہمیں تھے
ہے فرق طلب گار و پرستار میں اے دوست
دنیا تھی طلب گار پرستار ہمیں تھے
اس بندہ نوازی کے تصدق سر محشر
گویا تری رحمت کے سزاوار ہمیں تھے
دے دے کے نگاہوں کو تصور کا سہارا
راتوں کو ترے واسطے بیدار ہمیں تھے
بازار ازل یوں تو بہت گرم تھا لیکن
لے دے کے محبت کے خریدار ہمیں تھے
کھٹکے ہیں ترے سارے گلستاں کی نظر میں
سب اپنی جگہ پھول تھے اک خار ہمیں تھے
ہاں آپ کو دیکھا تھا محبت سے ہمیں نے
جی سارے زمانے کے گنہ گار ہمیں تھے
ہے آج وہ صورت کہ بنائے نہیں بنتی
کل نقش دو عالم کے قلم کار ہمیں تھے
پچھتاؤگے دیکھو ہمیں بیگانہ سمجھ کر
مانوگے کسی وقت کہ غم خوار ہمیں تھے
ارباب وطن خوش ہیں ہمیں دل سے بھلا کر
جیسے نگہ و دل پہ بس اک بار ہمیں تھے
احسانؔ ہے بے سود گلہ ان کی جفا کا
چاہا تھا انہیں ہم نے خطاوار ہمیں تھے







