امریکی کانگریس کی جانب سے فنڈنگ بِل منظور نہ ہونے پر اکثر امریکی محکمے بند ہونے لگے،غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق ریاستی اداروں کی بندش سے روزگار سے متعلق اہم اعداد و شمار جاری نہیں ہوں گے، امریکا میں شٹ ڈاون سے فضائی سفر متاثر ہوگا اور سائنسی تحقیق معطل ہو جائے گی۔

محکمے بند ہونے سے امریکی فوجیوں کو تنخواہوں کی ادائیگی نہیں ہو سکے گی، محکمے بند ہونے پر 7 لاکھ 50 ہزار وفاقی ملازمین کو جبری چھٹی پر بھیج دیا گیا ہے جبکہ امریکی محکموں کے شٹ ڈاون ہونے سے روزانہ تقریباً 400 ملین ڈالر کا نقصان ہوگا،یاد رہے کہ سینیٹ نے21 نومبر تک سرکاری کام کے لیے درکار عارضی اخراجاتی بل مسترد کر دیا ہے، ڈیموکریٹس نے صحت عامہ سے متعلق امور شامل نہ کرنے پر اس بل کی مخالفت کی تھی، ریپبلکنز نے لاکھوں امریکیوں کے لیے ختم ہونے والے ہیلتھ بینیفٹس کی توسیع سے بھی انکار کیا تھا،خبر ایجنسی کے مطابق ریپبلکنز کا مؤقف تھا کہ ہیلتھ سہولتوں کا معاملہ الگ سے حل کیا جائے، سرکاری ایجنسیوں کے لیے 1.7 کھرب ڈالر مختص کیا جانا اختلافات کا سبب ہے۔

امریکی حکومت بدھ کی رات بارہ بجے کے بعد فنڈنگ معاہدہ نہ ہونے کے باعث باضابطہ طور پر بند ہوگئی۔ یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا جب ڈیموکریٹس نے ریپبلکنز کے پیش کردہ فنڈنگ پلان کی حمایت سے انکار کردیا اور مطالبہ کیا کہ صحت عامہ کے حوالے سے متعدد چھوٹیں دی جائیں۔

ریپبلکنز، جو سینیٹ اور ایوانِ نمائندگان دونوں پر قابض ہیں، نے ڈیموکریٹس کے ان مطالبات کو سختی سے مسترد کردیا، جس کے بعد کانگریس میں قانون سازی کا عمل منگل کی رات گئے تک جاری رہا، مگر دونوں جماعتیں اپنے اپنے بلز کو آگے بڑھانے میں ناکام رہیں۔ نتیجتاً حکومت کے فنڈز ختم ہوگئے اور وفاقی ادارے بندش کا شکار ہوگئے۔یہ پہلا موقع ہے جب دسمبر 2018 میں شروع ہونے والی 35 روزہ شٹ ڈاؤن کے بعد دوبارہ وفاقی حکومت رُکی ہے۔ موجودہ بحران ایسے وقت آیا ہے جب ڈیموکریٹس گزشتہ انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے بعد اپنی سیاسی پوزیشن بحال کرنے کی کوشش میں ہیں۔

سینیٹ کے ڈیموکریٹک لیڈر چک شومر نے کہا،ریپبلکنز امریکہ کو شٹ ڈاؤن کی طرف دھکیل رہے ہیں، دو جماعتی بات چیت کو رد کر رہے ہیں اور صحت کی سہولتوں کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔دوسری جانب ریپبلکن سینیٹ لیڈر جان تھون نے الزام عائد کیا کہ انتہا پسند ڈیموکریٹس نے صدر کے ساتھ محاذ آرائی کے لیے امریکی عوام کو قربان کردیا ہے

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے متنبہ کیا کہ فنڈز کی کمی کی صورت میں وفاقی اداروں کے ملازمین کی بڑے پیمانے پر برطرفیاں ہوں گی۔ ان کا کہنا تھا جب حکومت بند ہوتی ہے تو چھانٹیاں کرنا پڑتی ہیں۔ اور ہم بہت سے لوگوں کو فارغ کریں گے ، یہ زیادہ تر ڈیموکریٹس ہوں گے ،وائٹ ہاؤس بجٹ آفس کے ڈائریکٹر رس ووٹ نے ڈیموکریٹس کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ “ڈیموکریٹس کے پاگل پن جیسے مطالبات” شٹ ڈاؤن کی اصل وجہ ہیں۔

ڈیموکریٹس نے مطالبہ کیا ہے کہ "اوباماکیئر” کے تحت ہیلتھ انشورنس ٹیکس کریڈٹس کو سال کے اختتام کے بعد بھی بڑھایا جائے۔میڈیکیڈ اور عوامی میڈیا کے فنڈز میں ریپبلکنز کی جانب سے کی گئی کٹوتیاں واپس لی جائیں۔غیر ملکی امداد میں مزید کمی کرنے کے لیے صدر کے "پاکٹ ریسیشن” اختیارات کو محدود کیا جائے۔ان اقدامات کی مجموعی لاگت تقریباً 1 کھرب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے، اور اگر میڈیکیڈ میں کٹوتیاں کی گئیں تو لگ بھگ ایک کروڑ افراد صحت کی سہولتوں سے محروم ہوسکتے ہیں۔

اگرچہ ڈیموکریٹس نے اپنے موقف پر سختی سے قائم رہنے کا عندیہ دیا ہے، لیکن ان کی صفوں میں اختلافات بھی نمایاں ہونے لگے ہیں۔ منگل کی رات تین ڈیموکریٹ سینیٹرز نے ریپبلکن بل کے حق میں ووٹ دیا۔ سینیٹر کیتھرین کورتیز میسٹو نے کہا میں نیواڈا کے عوام کو نقصان پہنچانے والے اور ٹرمپ انتظامیہ کو مزید طاقت دینے والے شٹ ڈاؤن کی حمایت نہیں کر سکتی،اسی طرح انڈیپنڈنٹ سینیٹر اینگس کنگ نے بھی شٹ ڈاؤن کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت بند ہونے سے صدر کو مزید اختیارات مل جاتے ہیں۔

حال ہی میں سامنے آنے والے سرویز میں عوام کی رائے منقسم ہے۔نیویارک ٹائمز،سینا کے سروے کے مطابق صرف 27 فیصد امریکیوں نے ڈیموکریٹس کے شٹ ڈاؤن موقف کی حمایت کی جبکہ 65 فیصد نے مخالفت کی۔میرسٹ کے ایک اور پول میں 38 فیصد ووٹرز نے شٹ ڈاؤن کا ذمہ دار ریپبلکنز کو ٹھہرایا، 27 فیصد نے ڈیموکریٹس کو اور 31 فیصد نے دونوں جماعتوں کو قصوروار قرار دیا۔ سینیٹ ریپبلکنز نے بدھ کی صبح دوبارہ ووٹنگ کرانے کا اعلان کیا ہے تاکہ ڈیموکریٹس کو اپنی پالیسی تبدیل کرنے کا موقع دیا جائے۔ تاہم فی الحال یہ واضح نہیں کہ حکومت کی بندش کتنے دن تک برقرار رہے گی۔

Shares: