بحیرہ احمر،امریکی حملے میں حوثی باغیوں کے 10 اراکین کی موت

0
120
hosi

امریکہ نے بحیرہ احمر میں یمن کے حوثی باغیوں کے 10 اراکین کو ہلاک کر دیا ہے

یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب حوثی باغی بین الاقوامی گزرگادہ میں ایک تجارتی بحری جہاز کو ہائی جیک کرنے کی کوشش کر رہے تھے، یمن کے حوثی باغیوں نے دس اراکین کی موت کی تصدیق کی ہے،حوثی فوج کے ترجمان یحییٰ ساریہ نے گروپ کے نیوز چینل المسیرہ کو بتایا کہ امریکی افواج نے حوثی باغیوں کی تین کشتیوں پر حملہ کیا ،امریکہ کو اس جرم کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا

قبل ازیں، امریکی سینٹرل کمانڈ نے کہا کہ اس کی بحریہ نے بحیرہ احمر میں ایک تجارتی کشتی پر حوثیوں کے حملے کی اطلاع پر جوابی کارروائی کی، جس میں تین حوثی کشتیاں ڈوب گئی ہیں اور ان پر سوار حوثیوں کے تمام اراکین ہلاک ہو گئے ہیں،سنگاپور کے پرچم والے کنٹینر جہاز مارسک ہانگزو نے 24 گھنٹوں سے بھی کم عرصے میں دوسری ایمر جنسی کال کی، جس میں کہا گیا کہ اس پر ایرانی حمایت یافتہ حوثی چھوٹی کشتیوں نے حملہ کیا ہے،

امریکہ کی سینٹرل کمانڈ کا کہنا ہےکہ بحیرہ احمر میں 19 نومبر سے اب تک حوثیوں کا بین الاقوامی جہازوں پر یہ 23 واں حملہ ہے،یمنی حکام کے مطابق امریکی ہیلی کاپٹر کی فائرنگ سے 10 حوثی جنگجو ہلاک اور 2 زخمی ہوگئے ہیں اور حوثیوں کی تین کشتیاں بھی ڈوبی ہیں

غزہ پر اسرائیل کے حملوں کے بعد یمنی حوثیوں نے بار بار ان جہازوں کو نشانہ بنایا ہے جو ان کے خیال میں بحیرہ احمر میں اسرائیل سے منسلک ہیں، حوثیوں نے کہا ہے کہ جب تک غزہ پر اسرائیل کے حملے بند نہیں ہوتے وہ اپنے حملے جاری رکھیں گے۔

امریکہ نے 19 دسمبر کو متنازعہ پانیوں میں جہاز رانی کی حفاظت کے لیے ایک عالمی بحری ٹاسک فورس تشکیل دی تھی، شروع میں امریکی قیادت والے اتحاد کی موجودگی نے راستے میں کچھ اعتماد بحال کیا جس کے بعد کئی بڑی فرموں نے وہاں آپریشن دوبارہ شروع کرنے کے منصوبوں کا اعلان کیا۔

امریکی وائس ایڈمرل بریڈ کوپر نے خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ جہازوں پر حوثیوں کے حملے جاری ہیں، گروپ تیزی سے جہازوں کو نشانہ بنانے کے لیے اینٹی شپ بیلسٹک میزائلوں کا استعمال کر رہا ہے۔ہم واضح طور پر دیکھتے ہیں کہ حوثیوں کے حملے جاری رہیں گے

ایرانی پاسداران انقلاب کے 11 اراکین کی موت

ایرانی کمانڈر رضا موسوی پیر کو شام کے دارالحکومت دمشق میں اسرائیل کے میزائل حملے میں جاں بحق ہوئے تھے،

Leave a reply