امریکا نے دنیا کے تقریباً تمام ممالک کے لیے امدادی پروگرام عارضی طور پر معطل کر دیے ہیں، جن میں یوکرین، تائیوان اور اردن جیسے ممالک شامل ہیں۔ اس فیصلے کا اطلاق 90 دنوں کے لیے کیا گیا ہے اور اس میں صرف اسرائیل اور مصر کو استثنیٰ حاصل ہے، جن کے لیے فوجی امداد جاری رکھی جائے گی۔

امریکی میڈیا کے مطابق، محکمہ خارجہ نے اپنے تمام سفارتی اور قونصل مشنز کو ایک حکم نامہ جاری کیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ تمام غیر ضروری امدادی پروگرام فوری طور پر معطل کردیے جائیں۔ حکام کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ان پروگراموں کی دوبارہ جانچ کر اس میں تبدیلی یا مکمل خاتمے کا فیصلہ کریں۔ اس فیصلے پر وزیر خارجہ مارکو روبیو ذاتی طور پر نظرثانی کریں گے۔یہ امدادی پروگرامز، جنہیں عارضی طور پر معطل کیا گیا ہے، ان میں یوکرین، تائیوان، اردن اور افریقی ممالک میں جاری ترقیاتی اور فوجی امداد شامل ہے۔ امریکی حکومت نے تاحال اس خبر کی سرکاری تصدیق نہیں کی ہے، تاہم میڈیا رپورٹس کے مطابق محکمہ خارجہ کے ملازمین میں اس اقدام کے بعد بے چینی پھیل گئی ہے۔

اگرچہ بیشتر امدادی پروگرامز معطل کردیئے گئے ہیں، تاہم ہنگامی خوراک اور چند دیگر ضروری امدادی امور جاری رکھنے کی اجازت دی گئی ہے۔ اس حکمنامے کے تحت نیا امدادی پروگرام شروع کرنے یا موجودہ پروگراموں کو توسیع دینے کی اجازت نہیں دی جائے گی جب تک کہ ان پر دوبارہ جائزہ نہ لیا جائے۔اس فیصلے کا اثر امریکہ کی افریقی پالیسی پر بھی پڑے گا، جہاں جارج بش جونئیر کے دور میں شروع کیے گئے ایڈز کے خلاف اینٹی ریٹرووائرل پروگرام پر بھی اس کا اثر پڑے گا۔امریکا کی خارجہ پالیسی میں امداد کا استعمال اکثر ایک ہتھیار کے طور پر کیا جاتا ہے تاکہ عالمی سطح پر اپنے مفادات کو یقینی بنایا جا سکے۔ 2023 میں امریکا نے دنیا بھر میں 64 ارب ڈالر کی امداد فراہم کی تھی۔

یوکرین کی امداد روکے جانے سے ممکنہ طور پر امریکا اور روس کے درمیان یوکرین جنگ کے خاتمے کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ، دسمبر 2024 میں امریکی صدر جو بائیڈن نے یوکرین کے لیے 2.5 ارب ڈالر کی امداد کا وعدہ کیا تھا، جس میں امریکی گوداموں سے ہتھیار بھی شامل تھے۔اسی طرح، بائیڈن نے تائیوان کے لیے بھی 571.03 ملین ڈالر کی دفاعی امداد منظور کی تھی، جس پر چین نے سخت اعتراض کیا تھا۔ اب اس امکان کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ تائیوان کی امداد کو منجمد کرکے چین کے ساتھ بہتر تعلقات بنانے کی کوشش کی جائے گی۔مزید برآں، 2022 میں بائیڈن نے اردن کے لیے 2023 سے 2029 تک سالانہ ایک ارب 45 کروڑ ڈالر کی امداد دینے کا وعدہ کیا تھا، جس پر اب سوالات اٹھ رہے ہیں۔

امریکا کی جانب سے امداد کی معطلی کا یہ اقدام دنیا بھر میں امریکا کے سفارتی اور اقتصادی تعلقات پر گہرا اثر ڈال سکتا ہے۔

Shares: