امریکی جیل میں قید ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی ممکن، کیسے؟ سینئر صحافی و اینکر پرسن مبشر لقمان نے بتا دیا
امریکی جیل میں قید ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی ممکن، کیسے؟ سینئر صحافی و اینکر پرسن مبشر لقمان نے بتا دیا
باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سینئر صحافی و اینکر پرسن مبشر لقمان نے کہا ہے کہ ڈاکتر عافیہ صدیقی کو پاکستان واپس لایا جا سکتا ہے، حکومت کو چاہئے کہ وہ درخواست دائر کر دے،
مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر عافیہ کے حوالہ سے جذباتی باتیں کی گئیں، لیکن اس کیس کو سمجھا ہی نہیں گیا، لوگ اسکے حق میں ہیں اور خلاف بھی ہیں، کسی کو کیس کی نوعیت کا نہیں پتہ،مجھے بھی صحیح معلوم نہیں تھا، اب آگہی ہوئی ہے،اگر اس کوو سیاسی استحصال کا المیہ قراد دیا جائے تو غلط نہ ہو گا
مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ مجھ سے داؤد غزنوی نے رابطہ کیا، داؤد غزنوی نے کتاب لکھی اور اس میں حوالے دیئے کہ کیس میں کونسی چیزیں کمزور ہیں،ڈاکٹر عافیہ کے وکلاء بھی اس کے ساتھ شامل ہیں. ڈاکٹر عافیہ 2008 تک کہاں رہیں کوئی مصدقہ اطلاعات نہیں،انہوں نے اپنی تعلیم امریکہ کی مختلف یوینورسٹیز میں حاصل کی، وہ 2003 میں لاپتہ ہوئی، امریکی عدالت میں انکے خلاف مقدمہ چلایا گیا جس نے انہیں 86 برس قید کی سزا سنائی، داؤد غزنوی نے جو تفصیلات دیں کہ کن بنیادوں پر رہائی ممکن ہے، میں لائر نہین ، قانون کو نہیں سمجھتا، انفارمیشن شیئر کر رہا ہوں، افغان ڈیل کے بعد ایک بار پھر ڈاکٹر عافیہ کے حؤالہ سے بات چیت شروع ہو گئی ہے،عافیہ صدیقی کے کیس کے اہم نکات کو سمجھا جائے، عافیہ صدیقی کو کسی امریکی عدالت نے دہشت گردی کے الزامات میں کبھی بھی مورد الزام نہیں ٹھہرایا،یہ بات کم لوگوں کو پتہ ہے، صرف جذباتی باتیں سنی جاتی ہیں.
مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ دوسرا اہم نقطہ یہ ہے کہ امریکی پراسیکیوشن نے کبھی بھی القاعدہ یا کسی دہشت گرد تنظیم کے ساتھ عافیہ کے روابط پر دلچسپی نہیں رکھی، عافیہ صدیقی پر امریکی اہلکاروں کے قتل کی کوشش کا کا الزام لگایا گیا،2010 میں مقدمے کی سماعت سے پہلے اور دوران عافیہ صدیقی کی ذہنی صحت بارے سوال اٹھے، مجھے پتہ چلا کہ انکی ذہنی حالت ایسی نہیں تھی کہ وہ اپنے وکیلوں کو اپنے ہی کیس کے بارے میں بتا سکیں، اب ڈاکٹر عافیہ کو 86 برس کی سزا سنائی ہے، ذہنی طور پر بیمار قیدیوں کی جیل میڈیکل سنٹر میں عافیہ کو رکھا گیا ہے،عافیہ صدیقی کی حقیقی اور غیر افسانوی کہانی تفصیل سے کتاب میں ہے،
مبشر لقمان نے مزید کہا کہ اگر ساری باتیں صحیح ہیں تو انکو پاکستان واپس لانے کا ایک طریقہ ہے، پاکستان پر اس حوالہ سے امریکہ کا دباؤ نہیں، امریکی ڈاکٹرز کہتے ہیں کہ عافیہ بیمار ہے، انہیں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پاکستان لایا جا سکتا ہے، اس پر امریکی صدر کی اجازت کی بھی ضرورت نہیں نہ ہی کسی سودے کی..پاکستانی حکومت کو امریکہ کے ساتھ کوئی بارگین بھی نہیں کرنا پڑے گی، امریکی عدالت اگر عافیہ کو ہمدردی کی بنیاد پر پاکستان بھجوانے کا فیصلہ دیتی ہے تو حکومت پر کوئی دباؤ نہیں ہو گا.
مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ یہ واحد ایک قانونی راستہ ہے جس کے ذریعے سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا رہائی مل سکتی ہے، ایسا کرنے سے نہ پاکستان پر کوئی سیاسی دباؤ ہو گا اور نہ ہی اسکے بدلے میں کوئی ڈیل کی جائیگی، یہ خالص عدالت کا فیصلہ ہو گا۔ اس حوالے سے عافیہ صدیقی کے وکیل داؤد غزنوی نے سابق اٹارنی جنرل کے مشورے سے وزیراعظم عمران خان کو خط بھی لکھا ہے، جس میں پاکستانی طلبہ کو ہمدردی کی بنیاد پر واپس لانے کے لیے طریقہ کار کی وضاحت کی گئی ہے۔ پی ٹی آئی حکومت کو اپنی سیاست جمکانے کا اس سے اچھا موقع نہیں مل سکتا، اس سےقبل ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو واپس لانے کا کوئی بھی قانونی طریقہ نہیں بتایا گیا تھا
مبشر لقمان نے مزید کہا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو واپس لانے کے لئے گورنر پنجاب نے بھی کوشش کی، پی ٹی آئی کے منشور میں بھی ڈاکٹر عافیہ کی رہائی شامل ہے، کچھ جماعتیں اس پر سیاست کرتی ہیں، ڈاکٹر داؤد غزنوی ڈاکٹر عافیہ کیس میں سپریم کورٹ میں بھی پیش ہوئے تھے،عافیہ صدیقی کا پاکستان آنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ اس کا نام غلط طور پر سیاست یا دیگر مقاصد کے لئے استعمال نہ ہو، یہ حقیقت ہے کہ وہ ذہنی طور پر بیمار ہیں، انسانی ہمدردی کی بنیاد پر رہائی ہونی چاہئے، امن معاہدے سے ماحول بہتر ہو رہا ہے، اب پاکستان کو چاہئے کہ وہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو واپس لانے کے لئے درخواست دائر کر دیں،آنے والے دنوں میں داؤد غزنوی اور ڈاکٹر عافیہ کے امریکہ میں جو وکیل ہیں ان کا موقف بھی لیں گے اور انکا انٹرویو بھی کریں گے، میں قانونی ماہر نہیں ہوں،لیکن وہ بات بتا رہا ہوں کہ جو عافیہ کے وکیل کہہ رہے ہیں کہ اس طرح سے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی ممکن ہے.
عالمی یوم تعلیم امریکی جیل میں قید ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے نام منسوب