واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت کے دوران غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف سخت کارروائیوں کے تحت، امریکہ نے فوجی طیاروں کے ذریعے تارکین وطن کو واپس ان کے وطن بھیجنے کا عمل روک دیا ہے، جس کی وجہ اس کے اخراجات کی بلند سطح بتائی جا رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق، آخری فوجی ڈی پورٹیشن فلائٹ یکم مارچ کو بھیجی گئی تھی اور اس اقدام پر عارضی یا مستقل طور پر پابندی عائد کرنے کا امکان ہے۔

امریکہ نے ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد جنوری میں فوجی طیاروں کا استعمال شروع کیا تھا تاکہ کچھ تارکین وطن کو ان کے ممالک یا گوانتانامو بے میں موجود فوجی اڈے تک پہنچایا جا سکے، تاہم یہ طریقہ مہنگا اور غیر موثر ثابت ہوا۔ ٹرمپ انتظامیہ نے اس اقدام کا مقصد تارکین وطن کے خلاف سخت موقف کا پیغام دینا بتایا تھا۔ امریکی وزیر دفاع ے گزشتہ ہفتے گوانتانامو بے کا دورہ کرنے کے دوران کہا تھا کہ "پیغام واضح ہے: اگر آپ قانون توڑیں گے، اگر آپ مجرم ہیں، تو آپ گوانتانامو بے جا سکتے ہیں۔”

امریکہ نے سی-17 طیاروں کا استعمال کرتے ہوئے تقریباً 30 پروازیں کیں اور سی-130 پروازوں کا بھی استعمال کیا، جن کا رخ بھارت، پیرو، گوئٹے مالا، ہنڈوراس، پاناما، ایکواڈور اور گوانتانامو بے تھا۔فروری میں، امریکی فضائیہ کے کارگو طیارے میں سینکڑوں بھارتی تارکین وطن کو مختلف مراحل میں بھارت روانہ کیا گیا۔ ان افراد نے اپنی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں پرواز کے دوران ہتھکڑیاں لگائی گئیں اور انہیں مسلسل رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا، صرف بھارت پہنچنے پر انہیں آزادی ملی۔

غیر قانونی تارکین وطن کی ڈی پورٹیشن کا عمل عام طور پر امریکی محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی کے تحت ہوتا ہے، جو تجارتی پروازوں کا استعمال کرتا ہے۔ لیکن ٹرمپ انتظامیہ نے سخت پالیسیوں کے پیغام کو اجاگر کرنے کے لیے فوجی پروازوں کا استعمال کیا تھا۔لیکن ان طیاروں کو طویل راستوں پر سفر کرنا پڑا اور کم تعداد میں افراد کو منتقل کیا گیا، جس کی وجہ سے یہ اقدامات زیادہ مہنگے ثابت ہوئے۔ رپورٹ کے مطابق، بھارت جانے والی تین فوجی پروازوں کی قیمت 3 ملین ڈالر فی پرواز تھی، جبکہ گوانتانامو بے جانے والی پروازوں کا ہر فرد پر خرچ کم از کم 20,000 ڈالر تک پہنچا۔اس کے مقابلے میں، امریکی امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ (ICE) کے تجارتی طیارے فی گھنٹہ 8,500 ڈالر خرچ کرتے ہیں۔سی-17 طیارے کی پرواز کی قیمت 28,500 ڈالر فی گھنٹہ ہے اور ان طیاروں کو طویل راستوں پر سفر کرنا پڑا، کیونکہ ان کا راستہ میکسیکو کے فضائی حدود سے گزرتا تھا، جس کی وجہ سے مرکزی اور جنوبی امریکہ کی پروازوں میں کئی گھنٹے کا اضافہ ہوا۔

میکسیکو اور دیگر لاطینی امریکی ممالک کا ردعمل یہ بھی اہم ہے کہ میکسیکو اور کچھ دیگر لاطینی امریکی ممالک جیسے کولمبیا اور وینیزویلا نے امریکی فوجی پروازوں کو اپنے علاقے میں اترنے کی اجازت نہیں دی۔ ان ممالک نے خود اپنے طیارے بھیجے یا تارکین وطن کو تجارتی پروازوں کے ذریعے ڈی پورٹ کیا۔امریکی حکومت کو ان اخراجات کی وجہ سے فوجی پروازوں کے استعمال میں کمی کرنی پڑی اور یہ پابندی عارضی یا مستقل ہو سکتی ہے۔

Shares: