انقلاب منچ کے سینئر رہنما اور ترجمان شریف عثمان ہادی کو ہفتہ کے روز ڈھاکہ یونیورسٹی سینٹرل مسجد کے قریب قومی شاعر قاضی نذرالاسلام کی قبر کے پہلو میں سپردِ خاک کر دیا گیا۔ ان کی تدفین سہ پہر تقریباً 3 بج کر 30 منٹ پر عمل میں آئی۔

اس سے قبل شریف عثمان ہادی کی نمازِ جنازہ پارلیمنٹ کے ساؤتھ پلازہ میں ادا کی گئی، جس میں عوام کی بڑی تعداد، سیاسی رہنما، سماجی شخصیات اور کارکنان نے شرکت کی۔ نمازِ جنازہ کے بعد میت کو جلوس کی شکل میں ڈھاکہ یونیورسٹی لایا گیا جہاں تدفین کی گئی۔سیکیورٹی خدشات کے پیشِ نظر ڈھاکہ یونیورسٹی کے تمام داخلی راستے بند رکھے گئے تھے، جبکہ امن و امان برقرار رکھنے کے لیے اضافی پولیس اور فوجی اہلکار تعینات کیے گئے تھے۔

شریف عثمان ہادی کی وفات پر آج ملک بھر میں یومِ سوگ منایا جا رہا ہے۔ سرکاری و نیم سرکاری اداروں میں تعزیتی فضا دیکھی گئی۔

واضح رہے کہ شریف عثمان ہادی ڈھاکہ-8 سے آئندہ قومی انتخابات کے ممکنہ امیدوار بھی تھے۔ انہیں 12 دسمبر کو پرتان پلٹن کے کلورٹ روڈ پر رکشے میں سفر کے دوران سر میں گولی مار دی گئی تھی۔ واقعے کے فوراً بعد انہیں ڈھاکہ میڈیکل کالج اسپتال میں سرجری کے لیے داخل کیا گیا، بعد ازاں بہتر علاج کے لیے ایورکیئر اسپتال منتقل کیا گیا۔طبی ماہرین کے مشورے پر انہیں مزید علاج کے لیے خصوصی طیارے کے ذریعے سنگاپور منتقل کیا گیا، تاہم وہ 18 دسمبر کی شب زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے انتقال کر گئے۔ ان کی میت جمعہ کی شام ڈھاکہ پہنچی۔

یہ واقعہ الیکشن کمیشن کی جانب سے 12 فروری کو آئندہ قومی انتخابات کے اعلان کے ایک دن بعد پیش آیا تھا، جس کے بعد سیاسی صورتحال مزید کشیدہ ہو گئی۔ہفتہ کے روز شریف عثمان ہادی کی نمازِ جنازہ میں شرکت کے لیے دارالحکومت کے مختلف علاقوں سے لوگوں کی بڑی تعداد میٹرو ریل کے ذریعے پہنچی۔ صبح سویرے ہی اہم اسٹیشنوں پر غیر معمولی رش دیکھنے میں آیا، جس کے باعث مسافروں کا دباؤ بڑھ گیا۔شریف عثمان ہادی کی اچانک اور پرتشدد موت پر ملک بھر میں گہرے رنج و غم کا اظہار کیا جا رہا ہے، جبکہ ان کے قتل کی مکمل تحقیقات اور ذمہ داران کو سزا دینے کا مطالبہ بھی زور پکڑتا جا رہا ہے۔

Shares: