اُستاد کسی بھی معاشرے کے لیے ہمہ وقت ایک مفکر، ایک مصلح، ایک دردِ دل رکھنے والا انسان، مخلص دوست، روحانی باپ اور پیشوا ہوتا ہے. اُستاد اپنا تن، من، دھن اپنے شاگردوں کی زندگیوں کو بہتر سے بہترین کرنے میں لگا دیتا ہے اور وہ یہ کام خالصتاً رضائے الٰہی کے حصول کے لیے کرتا ہے. ایک اچھا اور بہترین اُستاد ایک مکمل معاشرے کو سنوارنے میں اور اس کے مستقبل کو نکھارنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے. پڑھانا نوکری نہیں بلکہ ایک ذمہ داری ہے اور اسی ذمہ داری کو نبھانے کے لیے اللہ وحدہ لم یزل کی طرف سے اُستاد کو یہ ذمہ داری سونپی جاتی ہے. اُستاد چنیدہ ہوتا ہے اور چنیدہ لوگوں کی ذمہ داریاں بہت بڑی ہوتی ہیں.
نبی آخر الزماں خاتم النبیین جنابِ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بھی اس بات پر فخر کیا تھا کہ انھیں معلم بنا کر بھیجا گیا اور آپ ص نے جس طرح اصحابِ صفہ کی تربیت کی اُس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی. بات یہ ہے کہ معلم اور متعلم کا رشتہ بہت منفرد اور بے غرض ہوتا ہے. لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا آج کا اُستاد یہ کام کر رہا ہے؟ کیا آج کا اُستاد بچوں کی اخلاقی تربیت کر رہا ہے؟ عصرِ حاضر کا معلم بچوں کو وہ دے رہا ہے جس کی انھیں ضرورت ہے؟ کیا ہماری موجودہ نوجوان نسل مستقبل کے لئے کارآمد ثابت ہو گی؟ کیا معاشرے کے بگڑتے ہوئے حالات میں اُستاد کا ہاتھ بھی ہے؟ اور کیا بچوں کی اخلاقیات میں خامیاں اساتذہ کی وجہ سے ہیں؟
یہ اور اس جیسے سینکڑوں سوال ہمارے ذہن میں اُبھرتے ہیں اور ہم اُن کے جواب تلاش کرنے کی بجائے اُس کبوتر کی طرح لا پروا ہوئیے بیٹھے ہیں جو بلی کے آنے پر آنکھیں بند کر لیتا ہے. موجود حالات کو دیکھتے ہوئے ہر کوئی یہی بات کہہ رہا ہے کہ بچوں کی تربیت نہیں ہو رہی. گھر والے دھیان نہیں دیتے. اُستاد اب پہلے جیسے نہیں رہے. بچوں کے اخلاق بگڑ رہے ہیں اور وہ ہاتھوں سے نکل رہے ہیں. والدین کی نہیں مانتے، بڑوں کا احترام نہیں کرتے. جو بات کرے اسے آگے سے غیر مہذب انداز سے پیش آتے ہیں. بچے روحانی طور پر کمزور ہو رہے ہیں.
جس کو دیکھو وہ اُستاد سے بچوں کے متعلق شکایت کر رہا ہے. لوگوں کی باتیں اپنی جگہ درست ہیں لیکن دیکھتے ہیں کہ کیا عصرِ حاضر میں اُستاد کو وہ مقام و مرتبہ مل رہا ہے جس کا وہ حقدار ہے؟
بچے کی سب سے پہلی تربیت گاہ ماں کی گود ہوتی ہے لیکن اب دیکھنے میں آیا ہے کہ اسے ماں سے ہی تربیت نہیں مل رہی. ماں بچوں کو دودھ پلاتے ہوئے موبائل پر لگی ہوتی ہے. بچہ تھوڑا بڑا ہوتا ہے تو اُس پر انفرادی توجہ کرنے کی بجائے اسے موبائل تھما دیا جاتا ہے یا ٹی وی پر عجیب و غریب (poems) نظمیں اور کارٹون لگا دیے جاتے ہیں. وہ توجہ چاہتا ہے اور گھر سے اسے موبائل مل جاتا ہے. باپ کام کاج سے واپس آتا ہے تو بچے کو وقت دینے کی بجائے موبائل میں مصروف ہو جاتا ہے اور یوں دھیرے دھیرے بچہ موبائل اور اس کے متعلقات کو اپنے ذہن میں بٹھا لیتا ہے اور یوں اُس کو سکول بھیج دیا جاتا ہے جہاں پر یہ کہہ کر جان چھڑا لی جاتی ہے کہ اُستاد توجہ نہیں دیتے. بچے کی عادات پہلے ہی بگڑ چکی ہوتی ہیں اور سکول میں آ کر اسے ہر رنگ کے بچے مل جاتے ہیں اور یوں اس کی اچھی بری عادات کو ہوا ملتی ہے. اُستاد کو تدریس کے علاوہ اور بہت ساری پیچیدہ ذمہ داریوں میں زبردستی دھکیل دیا گیا ہے کہ وہ بیچارہ اپنی نوکری کو بچانے کے پے در پے ہی رہتا ہے. اُستاد صرف ایک کام کے لیے پیدا کیا گیا ہے اور وہ ہے تدریس. جب معاشرہ معلم سے وہ کام ہی نہیں لے رہا جس کے لیے وہ آیا ہے تو پھر معلم معاشرے کو وہ کیوں کر دے سکتا ہے معاشرہ جس کا متمنی ہے؟
سزا و جزا کا تصور ختم کر کے بچوں کو دلیر اور استاد کو کمزور بنا دیا گیا ہے. بچہ گھر سے نکل کر جہاں مرضی جائے، قصور استاد کا ہے. اس کی پڑھائی اچھی نہیں، قصور استاد کا، اس کا نتیجہ اچھا نہیں، قصور استاد کا، وہ غیر حاضر ہے، قصور استاد کا، وہ بدتمیر ہے قصور استاد کا،وہ بد اخلاق ہے قصور استاد کا.
تو بات یہ کہ ہم اگر یونہی چوہے بلی کا کھیل کھیلتے رہیں گے اور ایک دوسرے کو ہی موردِ الزام ٹھہراتے رہیں گے تو ہماری آنے والی نسل نا صرف تعلیمی لحاظ سے بلکہ جسمانی و روحانی لحاظ سے بھی لاغر و ضعیف ہو جائے گی اور ہم سب ایک دوسرے کا منھ تکتے رہیں گے. اچانک ہی یہ سب نہیں ہو جاتا بگاڑ اور سنوار میں ایک عرصہ لگ جاتا ہے.
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
پرانے زخم مندمل ہوتے وقت لگتا ہے اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر کوئی اپنا کام ایمانداری سے کرے اور ہر ایک کو وہی کام کرنے دیا جائے جو کام وہ بہتر طریقے سے کر سکتا ہے تاکہ مستقبل قریب میں ہم اپنے معاشرے کو تمام طرح کی غیر اخلاقی روایات سے محفوظ بنا سکیں