کل والدہ کے لیے خشک میوہ جات لینے بازار گئے۔۔۔ہول سیل ایک دو دکانوں سے معیار اور قمیتیں چیک کرتے تیسری دکان پر جا پہنچے۔۔۔معیار اور قمیت دونوں مناسب لگے اور واضح طور پر پہلی دو دکانوں سے بہتر تھے۔۔۔لہذا درکار میوہ جات کا آرڈر دے دیا۔۔۔
اچانک کاؤنٹر پر موجود صاحب نے مخاطب ہوئے۔۔آپ میڈم (والدہ کا نام) کی بیٹی ہیں نا۔۔۔میں نے جواب دیا جی بالکل۔۔۔کہتے میں پہچان رہا تھا۔۔ میڈم سے شکل ملتی ہے۔۔آپکو ایک بار میڈم کے ساتھ دیکھا تھا۔۔۔۔میں انکا شاگرد رہا ہوں۔۔۔۔میڈم کیسی ہیں۔۔۔بہت پہلے ملاقات ہوئی تھی۔۔ میں نے بتایا ہارٹ پیشنٹ ہے۔۔۔کافی کمزور ہو گئی ہیں۔۔
میں نے کہا آپ اپنا نام بتا دیجیے میں والدہ کو بتاؤں گی۔۔ نام بتایا پھر کہا آپ تشریف رکھیں۔۔۔میڈم سے ہم پانچوں بہن بھائیوں نے گورنمنٹ اسکول سے پڑھا ہے۔۔۔ہم بہن بھائی جو کچھ بھی ہیں انکی وجہ سے ہیں۔۔۔ میں نے چھوٹے بھائی کے ساتھ پڑھنے کے بعد آبائی کاروبار سنبھالا۔۔باقی بھی سیٹل ہیں۔۔۔میڈم ہمیں اسکول کی پڑھائی کے ساتھ درس بھی دیتی تھیں۔۔میں زیادہ کمزور تھا پڑھائی میں شام کو آپکے گھر بھی آتا تھا میڈم مفت ٹیوشن پڑھاتی تھیں۔۔
خیر سامان پیک ہونے کے بعد لڑکے نے بل اور سامان پکڑا دیا۔۔میں نے پیسے نکالنے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو آواز آئی۔۔رک جائیں پلیز۔۔۔یہ میری طرف سے میڈم کے "قدموں میں رکھ دیجیے گا” اور کہیے گا میرے اور میرے بچوں کے لیے دعا کر دیں بس۔۔۔یہ پیسے میں نہیں لے سکتا ہوں۔۔اور آئیندہ سے میڈم نے کچھ لینا ہو مجھے بس فون کر دیں۔۔
اگر استاد نے محنت اور کسی غرض کے بنا شاگرد کو پڑھایا ہو اور شاگرد بھی اس محنت اور خلوص کو یاد رکھے تو استاد شاگرد ایک مضبوط ترین رشتہ ہے۔۔۔رشتہ ہمیشہ عزت کے دم پر قائم ہوتا ہے اور مجھے فخر ہے میری والدہ نے یہ عزت کمائی ہے کیونکہ ہمیں والدہ کے حوالے سے پہچان کر احترام پہلی بار نہیں ملا ہے۔۔۔