ویسے تو دنیا بھر کے کمزور اور مقبوضہ مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے کوئی ایام مخصوص نہیں ہوتے مگر کیا کریں ہم اپنی ہی شہ رگ کو پنجہ ہنود میں دے کر بھول چکے ہیں اور سال میں چند مخصوص ایام یا پانچ فروری کو یاد کرکے یکجہتی کی محافل و مجالس منعقد کرکے حق ادا کر دیتے ہیں کہ سال بھر کشمیر کا نام لینا اور یکجہتی کشمیر کا اپنے لہو اور پسینے سے اظہار کرنا تو دہشت گردی ٹھہرا اور اس جرم کا ارتکاب کرنے والے پس دیوار زنداں ڈال دیے گئے لہذا آجاکر اک پانچ فروری بچتا ہے جس میں پوری قوم مقبوضہ شہ رگ والوں سے اظہار ہمدردی و یکجہتی کرتی ہے.
یہ دن بھی کوئی باقاعدہ آئین پاکستان کی رو سے نہیں ہے بلکہ نوے کی دہائی میں قاضی حسین احمد مرحوم کی ترغیب پر اس وقت کی حکومت نے اس دن کو سرکاری سطح پر منانے کا اہتمام کیا. ایسے ہی پچھلے دو تین برسوں سے امت مسلمہ کی حالت زار پر کڑھنے والے پاکستانی سوشل میڈیا ایکٹوسٹس نے 14 فروری کو یوم فلسطین کے نام سے منانا شروع کیا ہوا ہے کہ اس دن وہ قبلہ اول اور وہاں پر پنجہ یہود میں جکڑے اہل ایمان فلسطینیوں کو یاد کرکے ان کی آزادی کی خاطر سوشل میڈیا پر آواز بنتے ہیں. یہ ایک احسن اقدام ہے جو سوشل میڈیا ایکٹوسٹس نے شروع کیا ہے.
البتہ اس کے لیے جس دن کا انتخاب کیا گیا ہے وہ دن اہل مغرب کے ہاں پیار و محبت کے اظہار کا دن ہے جس کو لے کر یہاں دیسی بھی بدیسی بنتے ہوئے اس دن کو پیار و محبت کے اظہار کے نام پر ہوس کی آگ بجھاتے نظر آتے ہیں لہذا بالخصوص ان دیسیوں اور کچھ معتدل افراد کو اس خاص دن کو فلسطین کے نام مخصوص کرنا گراں گزرتا ہے حالانکہ بہتے ہوئے خون مسلم کے ساتھ کھڑا ہونے سے زیادہ محبت کا اظہار ہو ہی نہیں سکتا.
دوسری بات کہ یہ ویلنٹائن کوئی ہمارا اسلامی یا سرکاری تہوار یا ایونٹ تو ہے نہیں جو اس قدر فکر مند ہوں البتہ اگر حکومت پاکستان اور ذمہ داران ادارے اس دن کو فلسطین کے مجبور و مقہور مسلمانوں کے نام کردیتے ہیں تو اس سے فلسطینیوں کو بھی حوصلہ ملے گا اور دوسرا ویلنٹائن کے نام پر ہونے والی حیا باختگی اور ہوس کے کھیل بھی ختم ہونگے اس لیے زیادہ سے زیادہ آواز ملائیے تاکہ ذمہ داران بھی باقاعدہ اس دن کو فلسطین کے نام کردیں.
وما توفیقی الا باللہ

Shares: