کھدائی کے دوران 17ویں صدی کے ایک ویمپائر بچے کی باقیات دریافت
پولینڈ کے شہر پائین میں ماہرین آثار قدیمہ کو 17ویں صدی کے ایک ویمپائر بچے کی باقیات ملی ہیں-
باغی ٹی وی: سائنس پولینڈ کے مطابق، پولینڈ کے شمالی شہر بِڈگوزکز کے قریب واقع اس قبرستان کو ”لاوارث روحوں“ اور غربت زدہ افراد کے لیے بنایا کیا گیا تھا جو گرجا گھر کے قبرستان میں میں جگہ کی ادائیگی نہیں کر سکتے تھے۔
ٹورن میں نکولس کوپرنیکس یونیورسٹی کے ماہر آثار قدیمہ ڈیریوس پولینسکی نے بتایا کہ پاؤں میں لگے تالے سے پتہ چلتا ہے کہ لوگ اس بچے کی موت کے بعد اس سے خوفزدہ تھے،پولینسکی کئی سالوں سے اس علاقے کی کھدائی کر رہے ہیں، اور ان کی ٹیم کو تقریباً ایسی 100 قبریں ملی ہیں جن میں یہ ”ویمپائر“ بچہ بھی شامل ہے جس کی جنس نامعلوم اور عمر5 سے 7 سال کے درمیان ہے۔
مذکورہ بچے کی باقیات ایک ”ویمپائر“ خاتون کے پاس پائی گئی تھیں جسے 2022 میں اسی طرح کی تدفین کے ساتھ دریافت کیا گیا تھا اس کے پاؤں میں بھی تالہ تھا اور ساتھ ہی اس کی گردن پر درانتی تھی،لوگوں نے تالوں کا استعمال اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کیا کہ لاشیں اپنی قبروں میں رہیں ماہرین آثار قدیمہ کو ہڈیوں کے قریب تیسرا تالہ بھی ملا لیکن وہ کسی جسم سے جڑا نہیں تھا-
انڈونیشیا میں حجاب نہ پہننےپراسکول ٹیچرنے14 طالبات کےبال ہی کاٹ دیئے
پولینسکی نے کہا کہ یہ بچہ واحد ڈھانچہ ہے جسے قبرستان میں اس طرح دفن کیا گیا ہے یورپ میں اس طرح کے کوئی اور بچے دفن نہیں ہوئے،انہوں نے یہ بھی نشاندہی کی کہ پائین میں موجود یہ قبرستان معمول کی تدفین کی جگہ نہیں تھی کیونکہ اس میں چرچ نہیں تھا۔
ماہرین آثار قدیمہ کا خیال ہے کہ درانتی والی ”ویمپائر“ عورت دولت مند تھی عورت کے لباس میں سونے کے دھاگے کے ساتھ ساتھ اس کی کھوپڑی کے پیلیٹ پر سونے کے ٹکڑے تھے، ماہرین آثار قدیمہ نے اس کی زندگی کے بارے میں مزید جاننے کے لیے خاتون کی ہڈیوں سے ڈی این اے لیا ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ شاید وہ بہت بیمار رہی ہوں گی ماہرین مستقبل میں ویمپائر بچے کے ڈی این اے کی جانچ بھی کر سکتے ہیں،دراصل 16ویں صدی میں لوگ مردہ بچوں سے ڈرتے تھے، خاص طور پر اگر وہ اچانک یا غیر معمولی حالات کی وجہ سے انتقال کر جائیں۔
راولپنڈی:دو گاڑیوں میں تصادم ، 4 افراد جاں بحق، 6 زخمی
تاہم، ویمپائر کا تصور 17 ویں صدی میں موجود نہیں تھا،اس جگہ دوسرے بچوں کی ہڈیاں بھی ملی ہیں، لیکن مکمل ڈھانچہ نہیں ہیں،انہیں ایک بچے کے جبڑے کا ایک ٹکڑا بھی ملا جو سبز تھا ماہرین کا خیال ہے کہ شاید تانبے کے سکے کی وجہ سے سبزداغ پڑا ہو،کیونکہ کسی زمانے میں لوگوں کو منہ میں سکے رکھ کر دفن کرنا عام تھا ماہرین آثار قدیمہ ان باقیات کا جائزہ لے رہے ہیں جنہیں انہوں نے دریافت کیا ہے اور امید ہے کہ آئندہ سال مزید کھدائی کی جائے گی۔