جج ارشد ملک( مرحوم ) ویڈیو سکینڈل کیس نیا موڑ ،سیشن عدالت نے لیگی سینیٹر ناصر بٹ ، حمزہ عارف بٹ سمیت دیگر کو ویڈیو سکینڈل کیس سے بری کر دیا۔

کیس کی سماعت ایڈیشنل سیشن جج عدنان رسول لاڑک نے کی،جج ارشد ملک نے سینیٹر ناصر بٹ و دیگر کے خلاف دو ہزار انیس میں مقدمہ درج کرایا تھا، جج ارشد ملک نے الزام عائد کیا تھا کہ ناصر بٹ اور ان کے ساتھیوں نے اُن کی ویڈیو ریکارڈ کر کے اسے سیاسی مفاد کے لئے استعمال کیا۔ اس ویڈیو میں جج ارشد ملک کو ایک مقدمے میں فیصلے کے حوالے سے مبینہ طور پر دباؤ میں لانے کی کوشش کی گئی تھی۔ویڈیو سکینڈل نے پاکستان کے سیاسی منظرنامے میں زبردست ہلچل مچائی تھی اور اس کے بعد جج ارشد ملک کو اپنے عہدے سے برطرف کر دیا گیا تھا، جب کہ ویڈیو کے معاملے نے ملک کی عدالتوں اور سیاسی جماعتوں کے درمیان تنازعات کو مزید بڑھا دیا تھا۔ اس ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد سیاسی و قانونی حلقوں میں مختلف رائے زنی ہوئی، جس میں بعض افراد نے اسے عدلیہ کی خودمختاری پر حملہ قرار دیا تھا۔

واضح رہے کہ 6 جولائی 2019 کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت نے پریس کانفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کوالعزیزیہ ریفرنس میں 7 سال قید اور جرمانے سزا سنانے والے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی ایک ویڈیو جاری کی تھی جس میں مبینہ طور پر یہ بتایا گیا کہ احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کو نواز شریف کو سزا سنانے کے لیے بلیک میل کیا گیا اس بنیاد پر مریم نواز نے یہ مطالبہ کیا کہ چونکہ جج نے خود اعتراف کرلیا ہے لہٰذا نواز شریف کو سنائی جانے والی سزا کو کالعدم قرار دے کر انہیں رہا کیا جائے۔تاہم جج ارشد ملک نے ویڈیو جاری ہونے کے بعد اگلے روز ایک پریس ریلیز کے ذریعے اپنے اوپرعائد الزامات کی تردید کی اور مریم نواز کی جانب سے دکھائی جانے والی ویڈیو کو جعلی فرضی اور جھوٹی قرار دیا تھا

اس معاملے پر کابینہ اجلاس کے دوران اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے مؤقف اپنایا تھا کہ اعلیٰ عدلیہ کو اس معاملے کا نوٹس لینا چاہیے۔ وزیراعظم کے بیان کے بعد جج ارشد ملک کی اسلام آباد ہائیکورٹ کے قائم قام چیف جسٹس عامر فاروق سے ملاقات ہوئی، اس کے بعد قائمقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامر فاروق نے چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ سے ملاقات کی۔ان ملاقاتوں کے بعد 12 جولائی 2019 کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے قائمقام چیف جسٹس عامر فاروق نے جج ارشد ملک کو عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا جس کے بعد وزرات قانون نے ان کو مزید کام سے روکتے ہوئے ان کی خدمات لاہور ہائیکورٹ کو واپس کردیں۔

اس دوران جج ارشد ملک کا ایک بیان حلفی بھی منظر عام پر آیا جس میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ نوازشریف کے صاحبزادے حسین نواز نے انہیں رشوت کی پیشکش کی جج ارشد ملک نے بیان حلفی میں بتایا تھا کہ وہ مئی 2019 کو خاندان کے ساتھ عمرے پر گئے، یکم جون کو ناصر بٹ سے مسجد نبویؐ کے باہر ملاقات ہوئی، ناصر بٹ نے ویڈیو کا حوالہ دے کر بلیک میل کیا۔بیان حلفی کے مطابق انہیں (ارشد ملک) کو حسین نواز سے ملاقات کرنے پر اصرار کیا گیا جس پر انہوں نے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا، حسین نواز نے 50 کروڑ روپے رشوت کی پیشکش کی، پورے خاندان کو یوکے، کینیڈا یا مرضی کے کسی اور ملک میں سیٹل کرانے کا کہا گیا، بچوں کیلئے ملازمت اور انہیں منافع بخش کاروبار کرانے کی بھی پیشکش کی گئی تھی-

واضح رہے کہ جج ارشد ملک کی وفات ہو چکی ہے،کرونا کے ایام میں جج ارشد ملک کی موت ہوئی تھی

Shares: