آجکل ایک وبائی مرض کرونا وائرس کا بہت زور اور شور ہے یہ مرض چین کے شہر ووہان سے شروع ہوئی اور پھیلتے پھیلتے ابتک دنیا کے 188 ممالک تک جا پہنچی ہے جس میں ابتک 308463 افراد متاثر ہوئے ہیں اور ابتک 13069 افراد اس بیماری کی بدولت مر چکے ہیں اور بہت سے متاثرہ مریض صحت یاب بھی ہو چکے ہیں
پاکستان میں کرونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 645 ہے جن میں سے 3 افراد جانبحق اور 13 صحت یاب ہو چکے ہیں
سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں چین ,ایران اور اٹلی ہیں اور سںب سے زیادہ اموات بھی اٹلی میں ہوئی ہیں جس کی وجہ اٹلی کی عوام کا اپنی گورنمنٹ کی طرف سے جاری کردہ ہدایات پر عمل نا کرنا اور اس وباء کا بہت تیزی کیساتھ پھیلنا ہے جس کی بدولت اٹلی میں اب تک 4825 اموات اس وبائی مرض کی بدولت ہو چکی ہیں
اس وقت پوری دنیا میں اس وبائی مرض کرونا کی بدولت خوف و ہراس کا سما ہے
دنیا بھر کی طرح پاکستان گورنمنٹ نے بھی احتیاطا دفعہ 144 کا نفاذ کر رکھا ہے مزارات و پبلک مقامات کو لوگوں کیلئے بند کر رکھا ہے اور لوگوں کو ہدایت کی ہے کہ بغیر انتہائی ضرورت کے گھر سے نا نکلیں زیادہ ہجوم والی جگہوں پر جانے سے پرہیز کریں ہاتھ صابن سے بار بار دھوئیں ہینڈ سینیٹائزر کا استعمال کریں ہاتھ ملانے سے گریز کریں اور مسجد میں زیادہ تعداد میں اکھٹے نا ہو وغیرہ
یہ سب احتیاطی تدابیر کروانے کا مقصد اس بیماری کو پھیلنے سے روکنا ہے جو کہ ہمارے اپنے حق میں ہی بہتر ہے مگر کچھ کم عقل لوگ نا تو خود احتیاط کر رہے بلکہ دوسروں کو بھی احتیاط نا کرنے کا کہہ رہے ہیں اور بطور مثال یہ بات کہہ رہے ہیں کہ موت کا وقت مقرر ہے جو کہ آ کر ہی رہنی ہے مگر ایسے لوگ یہ نہیں سوچتے کہ اگر بجلی کی ننگی تاروں کو بغیر احتیاطی تدابیر کے چھوا جائے تو یقینا کرنٹ لگتا ہے اور کرنٹ لگنے سے بعض مرتبہ موت بھی واقع ہو جاتی ہے مگر اسی ننگی تاروں کو جب احتیاط کرتے ہوئے بچاؤ کے دستانے پہن کر اور احتیاطی اوزاروں سے چھوا جائے تو کرنٹ نہیں لگتا مطلوبہ کام بھی ہو جاتا ہے اور جان بھی بچ جاتی ہے
ہم مسلمان ہیں اور ہماری زندگی اسلام کی محتاج ہے اگر ہم نے دنیا و آخرت میں کامیاب ہونا ہے تو ہمیں اسلام و اپنے نبی جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے گئے طریقوں پر عمل پیرا ہونا پڑے گا کیونکہ نبی کریم نے فرمایا کہ کامیاب وہ ہے جو میرے اور میرے صحابہ کے بتائے ہوئے رستے پر چلے گا لہذہ اب چونکہ کرونا کی شکل میں ایک وبائی مرض پوری دنیا کو اپنی لپٹ میں لے چکی ہے تو ہمیں اس کیلئے نبی کریم کے فرامین کو دیکھنا پڑے گا تاکہ ہماری دنیاوی و اخروی کامیابی ہو اس لئے اس حدیث کو دیکھتے ہیں کہ کس طرح ایک جزام کے مریض سے میرے نبی نے احتیاط کرتے ہوئے ہاتھ نہیں ملایا تھا اور بیعت بھی لے لی تھی
وبائی (وائرس) بیماری کے شکار انسان سے پرہیز کرنا سنت ہے
سنن ابن ماجه
كتاب الطب
٤٣. بَابُ : الْجُذَامِ
شرید بن سوید ثقفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وفد ثقیف میں ایک جذامی شخص تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کہلا بھیجا: ”تم لوٹ جاؤ ہم نے تمہاری بیعت لے لی“۔
حالانکہ دوسرے صحابہ کرام جن کو جزام کا مرض لاحق نا تھا ان کے ہاتھ پر نبی کریم نے بیعت لی
حکم: تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/السلام 36 (2231)، سنن النسائی/البیعة 19 (4187)، (تحفة الأشراف: 4837)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/389، 390) (صحیح)»
درج بالا حدیث سے ثابت ہوا کہ وقت کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے ہم بھی صرف زبانی السلام و علیکم و رحمتہ اللہ کہیں کیونکہ یہ معلوم نہیں کہ کون شحض اس وقت اس وبائی مرض کرونا میں مبتلا ہے اور رہی بات ایک ہی جگہ یعنی اپنے گھروں میں رہنا جیسا کہ دفعہ 144 نافذ کی گئی ہے اور مزارات و پبلک مقامات کو بند رکھا گیا ہے تو اس کے لئے اس حدیث کو دیکھتے ہیں
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ بسند صحیح روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے طاعون کے بارے میں فرمایا:
(( جو آدمی طاعون کے حالات میں صبر کے ساتھ اور اجر و ثواب کی نیت سے اپنے گھر میں ٹھہرا رہے یہ جانتے ہوئے کہ اسے جو کچھ بھی ہو گا صرف وہی ہوگا جو اللہ نے اس کے مقدر میں لکھا ہے تو ایسے شخص کیلئے شہید کے اجر کے برابر ثواب ہے )
حكم الحديث: إسناده صحيح على شرط البخاري.
شیخ سلیمان الرحیلی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اللہ تعالی پر توکل کے ساتھ ساتھ حسبی اسباب کو بروئے کار لانے کے بارے میں بنیادی قاعدے کا درجہ رکھتی ہے ۔
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ وباء سے بچنے کے لیے گھر میں ٹھہرے رہنے کے بارے میں یہ حدیث بنیادی اصول ہے اور رہی بات بار بار ہاتھ کی تو نبی کریم کی مشہور حدیث الطہارت نصف الایمان یعنی صفائی نصف ایمان ہے پر عمل کیجئے تاکہ ہم اس وبائی مرض سے محفوظ رہ سکیں اور ہمارا ملک پاکستان اس سے بچ سکے تو حکومت پاکستان کی جاری کردہ ہدایات پر عمل کرکے اس وبائی مرض کو پھیلنے سے روکئیے
وبائی امرض میں احتیاط سنت نبوی کیساتھ!!! تحریر :غنی محمود قصوری
