ہر سال کی طرح، سال 2025 کے جون میں بھی فیصل آباد پریس کلب نے اپنے صحافی ساتھیوں کو جنت نظیر وادی کشمیر کی سیر کرانے کا عزم کیا۔ اس سفر کا خواب صدر پریس کلب شاہد علی نے اپنی ٹیم کے ہمراہ ترتیب دیا۔ ہر انتظام، ہر مقام، ہر لمحہ اُن کی پیشہ ورانہ سوچ اور محبت کی جھلک لیے ہوئے تھا۔ مگر قدرت نے ایک آزمائش لکھ دی۔ والدہ کی طبیعت ناساز ہوئی اور شاہد علی ٹرپ پر نہ جا سکے۔ لیکن ان کی عدم موجودگی میں بھی پروگرام کی روانی اور شاندار تنظیم نے ثابت کیا کہ ایک اچھے قائد کی تربیت صرف موجودگی سے نہیں، جذبے سے جھلکتی ہے۔ اُن کی ٹیم نے جس انداز سے ہر مرحلے کو نبھایا، وہ اپنی مثال آپ تھا۔ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے وادی کے ہر نظارے میں لیڈر کی دعائیں اور شفقت شامل ہو۔

یہ کوئی عام دن نہ تھا۔ سورج اپنی پہلی کرنوں کے ساتھ فیصل آباد پریس کلب کی عمارت پر نرمی سے پڑ رہا تھا۔ فضا میں ایک خوشی اور تجسس کی مہک تھی۔ یہ کوئی عام ٹور بھی نہ تھا۔ یہ ایک خواب کی تعبیر، ایک جنت نظیر وادی کی گواہی بننے کا سفر تھا۔ چار خواتین کی موجودگی نے قافلے کو اور بھی متوازن، شائستہ اور جاندار بنا دیا تھا۔19 جون کی رات جب ہم 72 صحافی، دو کوسٹرز اور ایک ہائی ایس گاڑی میں سوار ہو کر موٹر وے کے ذریعے مظفرآباد روانہ ہوئے، تو کسی کے چہرے پر نیند کے آثار تھے، تو کسی کی آنکھوں میں وادیٔ کشمیر کے خواب۔ لیکن ایک چیز سب میں مشترک تھی: جنت نظیر وادی کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی تڑپ۔موٹر وے کی ہموار سڑک پر گاڑیوں کے پہیے سرپٹ دوڑ رہے تھے اور ہر گزرتے لمحے کے ساتھ دلوں میں وادی کی دلفریب مناظر دیکھنے کی آرزو بڑھتی جا رہی تھی

مظفرآباد پہنچتے ہی سنٹرل پریس کلب کی جانب سے پرتپاک استقبال ہوا۔ ناشتہ جیسے جشن کا آغاز تھا۔ پھر ہم پیر چناسی کی بلندیوں کی طرف روانہ ہوئے۔ 9500 فٹ کی بلندی، چار گھنٹے کا سفر، اور بل کھاتی سڑکیں۔ ہر موڑ پر قدرت نے جیسے اپنی نئی تصویر بنائی ہو۔ درختوں سے ڈھکے پہاڑ، بادلوں کی اوٹ میں چھپتا سورج، اور دُور دُور تک پھیلا سبزہ۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے ہم کسی خیالی دنیا میں داخل ہو چکے ہوں۔
ہماری اگلی منزل پیر چناسی تھی،
پیر چناسی ایک سیاحتی مرکز ہے جو مظفر آباد آزاد کشمیر سے 30 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے یہ ایک پہاڑ کی چوٹی پر ہےپیر چناسی سید حسین شاہ بخاری کو کہتے ہیں ان کا مزار پہاڑ کی چوٹی پر واقع ہے۔مقامی روایت کے مطابق یہ بزرگ بلوچستان کے علاقے سے 350 سال پہلے ہجرت کر کے تبلیغ کے سلسلے میں یہاں آ کر بس گئے تھے۔ یہ مقام سطح سمندر سے 9500 فٹ بلند ہے۔ نزدیکی آبادی بھی خاصی نیچے پائی جاتی ہے۔ اس کے ایک طرف پیر سہار کو راستہ جاتا ہے، جہاں پیدل جانا پڑتا ہے دوسری طرف نیلم کا خوبصورت پہاڑی سلسلہ اور وادی کاغان۔کے پہاڑ مکڑا کا نظارا ہوتا ہے۔ایک ایسا مقام جو اپنی بلندی اور قدرتی حسن کے لیے مشہور ہے۔9500 فٹ کی بلندی پر واقع اس حسین چوٹی تک پہنچنے کے لیے ہمیں چارگھنٹے کا مشکل مگر حسین سفر طے کرنا پڑا۔ بل کھاتی چڑھائیاں اور درختوں سے ڈھکے سرسبز پہاڑ، ہر منظر دل کو موہ لینے والا تھا۔ ہوا میں ٹھنڈک تھی اور پرندوں کی چہچہاہٹ سے فضا میں ایک سحر طاری تھا۔پیر چناسی کی چوٹی پر پہنچ کر ہم نے جو نظارہ دیکھا، اسے الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔ چاروں طرف پھیلی وسیع و عریض وادی، بادلوں کے جھرمٹ اور پرسکون ماحول نے ایسا جادو کیا کہ ہم مبہوت رہ گئے.پیر چناسی پہنچنے پر الفاظ کم پڑ گئے۔ اُس اونچائی پر مزارِ پیر چناسی ایک روحانی سکون کا مرکز تھا۔ لنگر کی خوشبو، زائرین کا ہجوم، اور دھمال ڈالنے والے ڈھولچی۔ وہ لمحہ ناقابلِ بیان تھا جب ہمارے کچھ ساتھیوں نے دھمال میں شرکت کی اور پورے منظر میں ایک ماورائی کیفیت پیدا ہو گئی۔نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے بعد، ہمارے سپورٹنگ سٹاف نے چوٹی پر قالین بچھا کر کھانا پیش کیا۔ نان، گوشت، سلاد، چٹنیاں، سب کچھ ساتھ لایا گیا تھا۔ جیسے قدرت کی گود میں دعوت کا اہتمام ہو۔پھر شام ڈھلے ہم شاردا وادی کی جانب روانہ ہوئے شارد پاکستان  کی ریاست آزاد کشمیر  کا ایک قصبہ جو ضلع نیلم  کی تحصیل ہے ۔ مظفرآباد سے 136 کلومیٹر (85 میل) کے فاصلہ پر واقع ہے۔ یہ تحصیل شاردا کا صدر مقام ہے۔ یہ قصبہ ایشیائی تاریخ میں قدیم علمی مرکز کی حیثیت رکھتا ہے۔ قریباً تین ہزار سال قبل مسیح میں وسطی ایشیائی قبائل یہاں وارد ہوئے جو بدھ مت اور شیومتکے پیروکار معلوم ہوئے نے یہ بستی قائم کی۔ ان قبائل میں سے کشن قبیلے نے اپنے واسطے ایک نئی دیوی کی تخلیق کی جسے شاردہ دیوی کہا جاتا تھا۔ اسی دیوی کے نام سے یہ قصبہ آج بھی آباد ہے۔ دریاۓ نیلم کا قدیمی نام کشن گنگا بھی اسی خاندان سے منسوب ہے۔ یہ لوگ علم و فن سے روشناس تھے تاہم انھوں یہاں ایک علمی مرکز قائم کیا۔ تاریخ نویسوں کے مطابق زمانۂِ قدیم میں چین، وسطی ایشیا اور موجودہ پاکستان اور ہندوستان کے باسی حصولِ علم کی خاطر یہاں کا رخ کیا کرتے تھے۔ اس علمی مرکز کے آثار اب بھی  کھنڈر کی شکل میں شاردہ میں موجود ہیں جنھیں  شاردہ یونیورسٹی  کہا جاتا ہے۔ رات کے سناٹے میں چھ گھنٹے کا سفر، اور پھر نیلم کے کنارے دریا پار کرتے ہوٹلوں تک پہنچنا۔ سگنلز کا نہ ہونا ہمیں ماضی کی سیر پر لے گیا۔ ہوٹل نیا تھا، تھانہ شاردا کے پاس۔ رات کے کھانے کے بعد، کمرے میں راقم شاہد نسیم کے علاوہ ساتھیوں عامر بٹ،ملک غلام مصطفے،حافظ احمد نومان،ظفران سرور اور نعیم شاکرنے ایک دوسرے سے یوں باتیں کیں جیسے برسوں کا تعلق ہو۔ نیند نے دھیرے سے اپنی بانہوں میں لیا اور فجر کی اذان نے جگایا۔ہم نے اپنے کمرے میں ہی نماز ادا کی اور بستر پر لیٹ گئے۔ کمرے میں کوئی پنکھا یا اے سی نہیں تھا، لیکن ہلکے لحاف رکھے گئے تھے اور ہلکی ہلکی ٹھنڈک کا احساس تھا۔ دریائے نیلم کے کنارے ہوٹل میں ہم سب جلد ہی گہری نیند کی وادیوں میں کھو گئے۔ صبح ساڑھے آٹھ بجے آنکھ اس وقت کھلی جب سیکریٹری عزادار حسین عابدی نے دروازہ زور زور سے کھٹکھٹایا کہ جلدی اٹھو، ناشتہ تیار ہے اور ہمیں ساڑھے نو بجے وادی کیل کے لیے روانہ ہونا ہے ہمیں ناشتے کے قالین تک پہنچایا۔ مرغ چنے، نان، جیم، کیچپ، مایونیز، اور پھر اولپرز چائے۔ ایسا ناشتہ شاید کسی پانچ ستارہ ہوٹل میں بھی نہ ملے۔شاندار چائے نے جسم میں نئی جان ڈال دی۔

تقریباً دس بجے ہماری تینوں گاڑیاں وادی کیل کے لیے روانہ ہو گئیں۔ کیل  پاکستان  کی ریاست آزاد کشمیر کا ایک قصبہ جو ضلع نیلم  میں مظفرآباد سے 155 کلومیٹر (96 میل) کے فاصلہ پر واقع ہے۔ ]کیل ریاست آزاد کشمیر کا ڈسٹرک نیلم کی تحصیل شاردا کا ایک قصبہ ہے، جو آزاد کشمیر کے کیپیٹل مظفر آباد سے 155 کلومیٹر اور تحصیل شاردا سے 19 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے یہاں پر 19000 فٹ بلند سارا والی کیل کی چوٹی واقع ہے، جو پہاڑی چوٹیوں اور بڑے گلیشئروں کی جانب جانے والے کوہ پیماؤں کا بیس کیمپ بھی ہے، یہ ایک جدید تفریح گاہ ہے جہاں تک آنے کے لیے بسیں چلتی ہیں، میلوں تک وسیع و عریض سبزہ زاروں میں جولائی کے مہینا میں رنگ برنگے پھول کھلتے ہیں، یہ بھی چھ گھنٹے کا سفر تھا، جو اپنے اندر کئی خوبصورت مناظر سموئے ہوئے تھا۔ کیل پہنچ کر ہمیں معلوم ہوا کہ دریا پار کرنے کے لیے چیئر لفٹ استعمال کرنی پڑتی ہے، لیکن رش اتنا زیادہ تھا کہ ہماری باری تین گھنٹے بعد آتی۔ چیئر لفٹ میں صرف بارہ افراد کی گنجائش ہوتی ہے، اس لیے انتظار کرنا پڑتا۔ بہرحال، ہم میں سے کچھ دوستوں، جن میں رانا زاہد، ڈاکٹر سعید طاہر، عزیز بٹ، ڈاکٹر جمیل ملک، ابرار حبیبی، ملک غلام مصطفٰی، اشرف، ملک ظہور ،منیبہ اوررفعت وغیرہ شامل تھے، نے نیچے دریا کی طرف پیدل جانے کا فیصلہ کیا۔ ہم نے وہاں دکانوں سے بزرگوں والی اسٹک کرائے پر حاصل کی، اور جاتے ہوئے اسٹک کی مدد سے ہم آرام سے اترتے گئے، تقریباً ڈیڑھ کلومیٹر کے بعد ہم دریا کی موجوں کے سامنے تھے۔ پانی میں سب نے خوب انجوائے کیا، ٹھنڈے پانی میں پیر ڈال کر دل کو سکون ملا۔ دو بجے واپسی کا اعلان ہوا تو ڈیڑھ کلومیٹر کی چڑھائی چڑھتے وقت میرے سمیت جن دوستوں کی حالت ہوئی، وہ وہی جانتے ہیں یا خدا جانتا ہے۔ عزیز بٹ نے ہمارا بہت ساتھ دیا اور اوپر تک پہنچنے میں حوصلہ بڑھاتے رہے۔ ہماری ساتھی منیبہ کو تو گھوڑے پر بٹھا کر اوپر پہنچایا گیا۔ گرمی اور دھوپ بھی بہت سخت تھی، لیکن گرتے پڑتے ہم بھی بالآخر اوپر پہنچ گئے۔ واپسی پہاڑ کا دوسرا نام تھی۔ چڑھائی کے ہر قدم پر سانس پھولتی، لیکن عزیز بٹ کی ہمت افزائی ہمیں اوپر لے آئی۔
سب نے کرائے کی اسٹک واپس کیں اور کھانے کے لیے تیار ہو گئے۔ کھانے میں چاول تھے جو تھکن کے بعد بہت لذیذ محسوس ہوئے۔

کھانے کے بعد ہم LOC کی طرف روانہ ہوئے۔ دریائے نیلم کی دوسری طرف مقبوضہ کشمیر تھا۔ ہمیں یوں محسوس ہوا جیسے وقت تھم گیا ہو۔ پاکستانی جھنڈا فخر سے لہرا رہا تھا اور دوسری جانب زبردستی تھوپا گیا جھنڈا۔ فضا میں عجیب کشمکش کا احساس تھا۔پھر وہ منظر… جب دریا کے اس پار مقبوضہ کشمیر پر قابض ہندوستان کا جھنڈا، اور اِس طرف کشمیر و پاکستان کا پرچم لہرا رہا تھا۔ آنکھوں نے جو دیکھا، دل نے اسے صرف محسوس کیا۔ اس منظر کے آگے کوئی زبان بےبس ہے۔

کشمیر کی وادی کیرن میں برفیلے پانی اور تیز بہاوٴ والے دریائے نیلم کی ایک جانب جب سیاح گانے گاتے ہیں تو دوسری جانب سیاح ان کے لیے تالیاں بجاتے ہیں۔ دو ملکوں میں بٹے اس مقام پر سرحد یہی دریا ہے۔
ایسے میں دریا کے ایک جانب موجود پاکستانی سیاح گیت گائیں تو دوسری جانب انڈین شہری انھیں سن کر داد دے سکتے ہیں۔ لیکن ایسا ہمیشہ سے نہیں تھا۔

واپسی پر ہم ایک اور جنت نظیر وادی میں رکے، جہاں دریا کے اوپر رسوں اور لکڑی کے پھٹوں کا پل پار کیا۔ اس پل پر ایک وارننگ لکھی ہوئی تھی کہ ایک وقت میں صرف دو لوگ ہی پل پر سے گزر سکتے ہیں۔ پل پار کر کے وہاں پر موجود پاک آرمی کے سپاہی شعیب سے ملاقات ہوئی جو اپنی ڈیوٹی پر موجود تھا۔ اتنے خوبصورت نظارے تھے کہ انہیں الفاظ میں بیان کرنا ناممکن ہے۔ ہر طرف سبزہ، صاف شفاف پانی اور بلند و بالا پہاڑ، قدرت کی کاریگری کا حسین امتزاج تھا۔ پاک آرمی کے سپاہی شعیب سے ملاقات، جو اپنے فرض کی ادائیگی میں مصروف تھا۔ قدرت، وطن، اور ذمہ داری کا حسین امتزاج۔رات کو دریا کنارے موٹر بوٹ کا مزہ، شاردا بازار کی رونقیں، اور کچھ ضروری خریداری کی۔

اگلی صبح، چھ بجے سب کو اٹھا دیا گیا، ناشتےکے بعد ہم نے واٹر فال، انسانی شکل نما پہاڑ ،کنڈل شاہی اور دو مزید خوبصورت مقامات کی سیر کی۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ ان مقامات میں تقریباً 25-30 کلومیٹر اس طرف آزاد کشمیر تھا اور دوسری طرف مقبوضہ کشمیر، اور بیچ میں دریا بہہ رہا تھا۔ یہ سرحد کی تقسیم اور قدرت کی بے پناہ خوبصورتی کا ایک عجیب و غریب امتزاج تھا۔ وہاں سے ہم واپس مظفر آباد آئے اور مظفر آباد سے 40 کلومیٹر کے فاصلے پر کوہالہ کے مقام پر دریائے کنارے کھانا کھایا۔ مغرب کی نماز ادا کر کے ہم وہاں سے مری کے لیے روانہ ہو گئے۔ مری ہمارے ٹرپ میں شامل نہیں تھا، لیکن دوستوں کے مشورے سے اسے شامل کر لیا گیا۔ رات 11 بجے ہم مری پہنچے جہاں مال روڈ کی رونقیں اپنے عروج پر تھیں۔ رنگا رنگ روشنیوں، سیاحوں کے ہجوم اور ٹھنڈی ہوا نے دل کو مزید شاد کر دیا۔ مال روڈ کی رونقیں، سردی کی خوشبو، اور رات کا حسن۔۔۔ سب کچھ جیسے فلمی سین کا حصہ ہو۔

ہمیں دو گھنٹے کا وقت دیا گیا جس میں ہم نے مال روڈ کی سیر کی اور خریداری کی۔ اس کے بعد سارے ساتھی اپنی اپنی گاڑیوں میں سوار ہو کر واپس فیصل آباد کی طرف روانہ ہو گئے۔ فیصل آباد پہنچے تو ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی، جو اس یادگار سفر کا ایک خوشگوار اختتام تھا۔ جہاں بارش ہماری واپسی پر اشک بار تھی۔ شاید قدرت بھی ہمیں رخصت کرتے ہوئے اداس تھی۔

یہ سفر صرف ایک ٹور نہ تھا، یہ ایک خواب، ایک افسانہ، ایک روحانی تجربہ تھا۔ وادیٔ کشمیر جنت نظیر ہے، نہ صرف قدرتی حسن کی وجہ سے بلکہ ان جذبات، احساسات، اور لمحوں کی بدولت جو انسان کو اپنے اندر نرمی، شکر، اور محبت سے بھر دیتے ہیں۔

بلاشبہ اس سارے سفر کے دوران محمدعقیل،میاں رمضان،رومان رومی، سجاد اور کاشف کی خدمات ہر لحاظ خالصتا ناشتےا،کھانے کے بندوبست کے حوالے سے قابل تعریف ہیں۔ جنکی بناء پر تمام صحافیوں کو شاندار انتظامات میسر آئے۔ سیکریٹری عزادار عابدی،طاہر نجفی نے بھی اپنی اپنی ذمہ داریوں سے مکمل انصاف کیا۔۔۔۔
یہ سفر صرف ایک تفریحی دورہ نہیں تھا بلکہ ایک ایسا تجربہ تھا جس نے ہمیں قدرت کے حسین شاہکاروں سے متعارف کرایا، باہمی بھائی چارے اور دوستی کے رشتے کو مضبوط کیا اور وطن عزیز کے حسین گوشوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع فراہم کیا۔ وادی کشمیر، بلاشبہ جنت نظیر ہے، اور فیصل آباد پریس کلب کی یہ کاوش قابل تحسین ہے جس نے صحافیوں کو اس حسین وادی کی سیر کا موقع فراہم کیا۔ یہ سفر ہماری یادوں میں ہمیشہ جگمگاتا رہے گا۔کشمیر کا یہ ٹور صرف ایک سفر نہ تھا، یہ دلوں کا بدل جانا، احساسات کا نیا جنم اور وطن سے جڑت کا نیا روپ تھا۔ ہر صحافی اب صرف قلم نہیں، کشمیر کا سفیر بھی بن چکا ہے۔ اگر کسی نے اس ٹور کی ایک تصویر کھینچی ہو، تو وہ صرف منظر نہ ہو گا، وہ ایک جذبہ ہو گا… ایک وعدہ ہو گا کہ ہم اس جنت نظیر خطے کی محبت، اس کی خوبصورتی، اس کے سچ کو دنیا کے سامنے لاتے رہیں گے۔

Shares: