سنگلاخ چٹان پہ کندہ بدھا کا دوسرا بڑا مجسمہ ،تحریر : آصف شہزاد
وادی سوات قدرتی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ قدیم تہذیبوں کے حوالے سے بھی نمایاں شہرت رکھتا ہے۔یہ علاقہ گندھارا تہذیب کا ایک بہت بڑا مرکز رہا ہے۔جہاں ہزاروں سال قدیم آثار اور کھنڈرات سے مختلف تہذیبوں کا سراغ ملتا ہے۔ ان آثار قدیمہ میں بین الاقوامی شہرت کا حامل مہاتمہ بدھ کا مجسمہ خاص طور پر قابل ذکر ہے۔
سوات کے مرکزی شہر مینگورہ سے نو کلو میٹر کے فاصلہ پر شمال کی طرف واقع منگلور نامی گاؤں ہے جہاں بدھ مت دور کے آثار بکھرے پڑے ہیں۔ ان آثار میں سب سے اہم “شخوڑئی مجسمہ” ہے جوکہ جہان آباد کے مقام پر واقع ہے، اس مجسمے کو حیران کن طور پر ہزاروں برس قبل ایک بڑی اور سخت چٹان پر کندہ کیا گیا ہے جس کی لمبائی تیرہ فٹ جبکہ چوڑائی سات فٹ تک ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ بدھا کا یہ مجسمہ افغانستان کے صوبہ بامیان میں واقع مجسمہ کے بعد ایشیاء کا دوسرا بڑا مجسمہ ہے تاہم سنگلاخ چٹان پر کندہ ہونے کی وجہ سے منگلور کا شخوڑئی مجسمہ کافی اہمیت اور مقبولیت کی حامل ہے۔ اس مجسمے کا ذکر قدیم چینی سیاحوں کے سفرناموں میں بھی باقاعدہ طور پر موجود ہے۔
دو ہزار سات میں عسکریت پسندوں نے اس مجسمےکو تین بار تباہ کرنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں اس تاریخی مجسمے کو جزوی نقصان پہنچا تاہم اطالوی حکومت کے ارکیالوجی ڈیپارٹمنٹ نے سوات کے قدیم آثار اور تاریخی مقامات کو مرمت کرکے اپنی اصل حالت میں واپس لانے کا عندیہ دے دیا ہے اور اس سلسلہ میں کئی ایک جگہ پر مرمت کا کام بھی کیا گیا ہے جوکہ ملکی و غیر ملکی سیاحوں کےلئے ایک دفعہ پھر توجہ کے مراکز بنے ہوئے ہیں۔ مرمت کردہ آثار قدیمہ میں جہان آباد کے مقام پر واقع دنیا کا دوسرا بڑا بدھا کا مشہور مجسمہ شخوڑئی بھی شامل ہے۔
شخوڑئی مجسمہ کو عسکریت پسندوں کی جانب سے رات کی تاریکی میں بارود سے اُڑانے کی کئی بار کوشش کی گئی تاہم شائد زیادہ اونچائی کی وجہ وہ اس کو مکمل طور پر تباہ نہ کرسکے یہاں تک کہ مجسمہ کے چہرے میں ڈرلنگ کے بعد بارود بھر دیا گیا اور دھماکے سے اڑادیا گیا تاہم بدھا کے چہرے کے بالائی حصے کے علاوہ باقی مجسمہ محفوظ رہا۔ جس کے بعد ڈاکٹر لوکا کی قیادت اور اطالوی حکومت کی کوششوں سے مجسمہ کی مرمت اور بحالی ممکن ہوئی اور مجسمہ اپنی اصلی حالت میں ایستادہ ہوا
منگلور میں واقع شخوڑئی بدھا کے بارے میں آثارِ قدیمہ کے ماہرین کہتے ہیں یہ مجسمہ ریاضی اور آرٹ کی اصولوں پر بنایا گیا ہے۔اونچائی ، چھوڑائی سمیت ابھرائی اور ناپ کا خاص خیال رکھا گیا ہے جس کی وجہ سے اس مجسمہ کو جن زاویوں اور فاصلوں سے دیکھا جاسکتا ہے ان زاویوں اور فاصلوں کی کیلکولیشن کی گئی ہے اور کسی بھی زاویے سے اس کی شکل میں بگاڑ محسوس نہیں ہوتا۔
وادئی سوات میں اس قسم کے آثار جگہ جگہ بکھرے پڑے ہیں دریائے سوات کی وادی کئی ہزار سال سے حملہ آوروں کی آماجگاہ رہی ہے یہاں چکدرہ برج سے لے کر سیدوشریف تک گندھارا کے آثار، بدھ خانقاہیں اور شاہی عمارتیوں کے آثار پائے جاتے ہیں۔زیادہ تر قدیم تاریخی جگہیں بریکوٹ سیدو شریف اور اوڈیگرام کے آس پاس ہیں جن کی زیارت کیلئے سنہ دو ہزار سے قبل زائرین کا تانتا بندھا رہتا تھا تاہم جب عسکریت پسندی کا دور شروع ہوا اور حالات خراب ہوئے تو بین الاقوامی زائرین کا آنا بند ہوگیا تاہم بحالی کے بعد اب باہر دنیا سے ان آثار کو دیکھنے اور ان کی زیارت کرنے کیلئے لوگ آنا شروع ہوگئے ہیں اور حالیہ دنوں میں بھی سری لنکا سے زائرین نے سوات کا دورہ کیا تھا اور اپنے مذہبی مقامات کی زیارت کی تھی، اس حوالے سے محکمہ آثار قدیمہ اور محکمہ سیاحت کا مشترکہ موقف ہے کہ حکومت مذہبی سیاحت کو فروغ دینے کیلئے سنجیدہ ہیں اور اس سلسلہ میں بدھسٹ ٹریل کے نام سے ایک منصوبہ بھی زیر تکمیل ہے جسے مکمل کرنے کیلئے حکومت پر عظم ہیں یہ ٹریل سوات اور صوابی سے ہوتے ہوئے صوبہ پنجاب کے علاقہ ٹیکسلا تک ہوگی اور اس ٹریل پر جگہ جگہ بدھ مت سے وابستہ آثار اور مقامات تک زائرین کی رسائی اور رہنمائی میں کافی آسانی پیدا ہوگی۔
آثار قدیمہ پر تحقیق کرنے والے سوات کے معروف محقق محمد پرویش شاھین جن کا تعلق بھی اسی گاؤں سے جہاں یہ مجسمہ واقع ہے کے مطابق دنیا میں واحد شخوڑئی وہ جگہ ہے جہاں اس مجسمہ کچھ ہی فاصلے پر بدھا کے اقوال پر مشتمل کتبے کندہ ہیں۔ماہرین کے مطابق سوات میں تقریباً ایک بزار سال قبل اسلام کی آمد ہوئی تاہم یہاں پر بسنے والے مسلمانوں نے مجموعی طور پر ان آثار کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا بلکہ اس کے برعکس ان آثار کو محفوظ رکھا۔