سپریم کورٹ ،فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کیخلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 6 رکنی لاجربنچ نے سماعت کی ،جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی ،جسٹس مظاہرنقوی اورجسٹس عائشہ ملک بینچ کا حصہ ہیں ،چئیرمین تحریک انصاف کے وکیل حامد خان روسٹرم پر آگئے اور کہا کہ ہماری درخواست پر ابھی نمبر نہیں لگا۔ ہماری اس درخواست میں ایک استدعا فوجی عدالتوں کیخلاف ہے۔ میں صرف ایک فوجی عدالتوں کیخلاف استدعا پر زور دونگا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ معاملہ بعد میں دیکھیں گے۔ابھی ہم ایک سیٹ بیک سے باہر نکل رہے ہیں۔ آپ اپنی درخواست میں ترمیم کیوں نہیں کر لیتے۔ آپ نے ایک درخواست میں کئی استدعائیں کی ہیں ،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے حامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم پہلے آرڈر لکھوائیں گے،آپ کی درخواست کو بعد میں دیکھیں گے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ صبح جو سیٹ بیک ہوا، اس سے ریکور ہو کر آئے ہیں، آئینی بحث کے بجائے دیگر حربے استعمال کیے جا رہے ہیں،

فوجی عدالتوں میں بنیادی حقوق میسر ہوں تو اعتراض نہیں،وکیل سلمان اکرم راجہ
درخواست گزار جنید رزاق کے وکیل سلمان اکرم راجہ کے دلائل شروع ہو گئے، جسٹس عائشہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اپنے پہلے دن کے سوال پر جاوں گی کہ آرمی ایکٹ کے سیکشن 2 ڈی کا اطلاق کس پر ہوتا ہے؟ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا افواج کے افسران کا بھی ملٹری کورٹس میں کورٹ مارشل نہیں ہو سکتا؟ وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ برطانیہ اور امریکہ میں مخصوص حالات میں فوجی افسران کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوتے ہیں، جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ فوجی عدالتوں کیخلاف ہائیکورٹ میں آئینی درخواست کیوں دائر نہیں کی جا سکتی؟وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ہائیکورٹ فوجی عدالتوں کی حیثیت کا تعین نہیں کر سکتی، میرے موکل کے بیٹے کا معاملہ ملٹری کورٹس میں ہے، ٹرائل صرف آرٹیکل 175 کے تحت تعینات کیا گیا جج کر سکتا ہے،فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل کسی صورت نہیں ہوسکتا، شہریوں کو کسی صورت شفاف ٹرائل کے بنیادی حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا،انسداد دہشتگردی کی عدالتوں میں ملزمان کو بنیادی حقوق میسر ہوتے ہیں، فوجی عدالتوں میں بنیادی حقوق میسر ہوں تو اعتراض نہیں، صرف ملزمان کی حوالگی سے شفاف ٹرائل کا بنیادی حق ختم نہیں ہوسکتا،

کل عید سے پہلے آخری دن ہے، سماعت مکمل کرنی ہے وقت کی قلت کا خیال رکھیں،چیف جسٹس
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ آپ کی بات واضح نہیں ہے، کیا ٹرائل شروع ہوچکا ہے؟ وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ٹرائل کا آغاز نہیں ہوا، جس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ٹرائل شروع ہی نہیں ہوا تو مفروضوں پر کیوں جا رہے ہیں؟ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میرا کیس یہ ہے کہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہوسکتی ہے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ وقت کم ہے اس لئے موٹی بات کریں کل عید سے پہلے آخری دن ہے، سماعت مکمل کرنی ہے وقت کی قلت کا خیال رکھیں،

آرمی ایکٹ کا اطلاق سویلینز پر ہوتا ہے تو پھر کیا کیس ہے آپکا؟ جسٹس عائشہ ملک کا وکیل سے مکالمہ
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ بنیادی سوال یہ ہے کہ آرمی ایکٹ کا اطلاق سویلینز پر ہوتا ہے یا نہیں، یہ نکتہ طے ہو جائے تو آرٹیکل 175(3) والی دلیل کی ضرورت نہیں پڑے گی، جس کیس کا حوالہ دیا جا رہا ہے وہ ریٹائرڈ فوجی افسر کا ہے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آرمی ایکٹ کا سیکشن 2 ڈی آئین سے تجاوز نہیں کر سکتا، جسٹس عائشہ نے کہا کہ بہتر نہیں ہوگا کہ پہلے یہ دیکھا جائے کہ سویلین پر آرمی ایکٹ کے سیکشن 2 ڈی کا اطلاق ہوتا بھی ہے یا نہیں،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ملک یہ بنیادی انسانی حقوق کا کیس ہے، آرمی ایکٹ کا سیکشن 2 ڈی سویلینز کو بنیادی حقوق سے محروم نہیں کر سکتا، جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ اگر آپ اس بات پر آمادہ ہیں کہ آرمی ایکٹ کا اطلاق سویلینز پر ہوتا ہے تو پھر کیا کیس ہے آپکا؟ وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ آرمی ایکٹ میں سویلینز میں ریٹائرڈ آرمی افسران بھی آتے ہیں،

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے وکیل سلمان اکرم راجہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا کورٹ مارشل کا لفظ آرمی ایکٹ کے علاوہ کہیں استعمال ہوا؟ ملٹری کورٹس کے بارے میں بہت سے فیصلے ہیں وہ دیکھنا چاہتے ہیں، جو کیس ملٹری افسران کے بارے میں نہیں اس میں انہیں کیوں لا رہے ہیں،وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میرا فوکس صرف سویلینز پر ہے، آرٹیکل 199 آرمی ایکٹ کے تحت سزاوں پر لاگو ہوتا ہے لیکن کورٹ مارشل پر نہیں ،

 

کیا فوجی عدالتوں کا آرمی ایکٹ کے علاوہ آئین میں کہیں ذکر ہے؟ چیف جسٹس
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا جو افراد آرمی ایکٹ کے تحت ڈسپلنری خلاف ورزی کرتے ہیں ان پر بنیادی حقوق کا اطلاق نہیں ہوتا؟آپ کے دلائل کا مقصد سمجھنا چاہ رہے ہیں،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا آپ فوجی افسران کی نمائندگی کر رہے ہیں؟ آپ کا کیس سویلینز کے بنیادی حقوق سے متعلق ہے، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ایک وکیل متبادل عدالتی نظام کی بات کرتے ہوئے کورٹ مارشل کے معاملے پر کیسے جا سکتا ہے؟ وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ آرٹیکل 175 تین کے تحت جوڈیشل اختیارات کوئی اور استعمال نہیں کر سکتا،سپریم کورٹ خود ایک کیس میں طے کر چکی کہ جوڈیشل امور عدلیہ ہی چلا سکتی ہے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ فوجی عدالتوں سے متعلق متعدد فیصلے موجود ہیں،کیا آپ ملٹری کورٹس میں فوجیوں کے ٹرائل کی بات پر بھی جانا چاہتے ہیں؟،وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میں ملٹری کورٹس میں سویلین کے ٹرائل کی حد تک ہی بات کر رہا ہوں،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ تو ہمیں یہی بتائیں کہ کیا سویلین کو بنیادی حقوق سے محروم کیا جا سکتا ہے؟سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ آرٹیکل 175(3) عدلیہ اور ایگزیکٹو کو الگ کرتا ہے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا فوجی عدالتوں کا آرمی ایکٹ کے علاوہ آئین میں کہیں ذکر ہے؟ اگر سویلینز کو بنیادی حقوق سے محروم نہیں کیا جا سکتا تو بات ختم،آپ قانون کی شقیں چیلنج کرتے ہوئے معاملہ پیچیدہ کر رہے ہیں،

ہم ملٹری کورٹس کو کیسے کہیں کہ وہ عدالتیں نہیں ہیں؟ جسٹس عائشہ ملک
وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سویلینز کی دو اقسام ہیں، ایک وہ سویلین ہیں جو آرمڈ فورسز کو سروسز فراہم کرتے ہیں، فورسز کو سروسز فراہم کرنے والے سویلین ملٹری ڈسپلن کے پابند ہیں،دوسرے سویلینز وہ ہیں جن کا فورسز سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں،جو مکمل طور پر سویلینز ہیں ان کا ٹرائل آرٹیکل 175/3 کے تحت تعینات جج ہی کرے گا، جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ ہم ملٹری کورٹس کو کیسے کہیں کہ وہ عدالتیں نہیں ہیں؟ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا ملٹری کورٹس کے فیصلے چیلنج نہیں ہو سکتے؟وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ آرمی چیف کے سامنے یا انکی بنائی کمیٹی کے سامنے ملٹری کورٹس کے فیصلے چیلنج ہو سکتے ہیں،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کورٹس میں اپیل کا دائرہ وسیع ہونا چاہیے،وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ فوجی عدالتوں کا فیصلہ کسی عدالت میں چیلنج نہیں ہو سکتا، جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ آپ کہنا چاہتے ہیں آرٹیکل 175(3) کے تحت متوازی عدالتی نظام نہیں چل سکتا،

جسٹس عائشہ ملک نے وکیل سلمان اکرم راجہ سے استفسار کیا کہ ملٹری کورٹ عدالت ہے یا نہیں؟ وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ملٹری کورٹ عدالت ہے جو سویلین کی زندگی اور آزادی چھیننے کااختیار رکھتی ہے،جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ کو صرف سویلین کے فوجی عدالت میں ٹرائل پر اعتراض ہے فوجی افسران کے ٹرائل پر نہیں،وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ امریکہ میں جب معمول کی عدالتیں اپنا کام جاری نہ رکھ سکیں تب فوجی عدالتیں حرکت میں آتی ہیں،چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ امریکی قانون ان سویلینز کے بارے میں کیا کہتا ہے جو ریاست کیخلاف ڈٹ جائیں؟ وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ امریکہ میں سویلنز کی غیر ریاستی سرگرمیوں پر بھی ٹرائل سول عدالتوں میں ہی ہوتا ہے، وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ سویلین کا مخصوص حالات میں فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہو سکتا ہے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ فیصل صدیقی سے وہ قانونی حوالہ جات لیں گے جو سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی اجازت دیتا ہے، جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کیا جنوبی ایشیاء میں کسی ملک میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائلز ہوتے ہیں؟وکیل نے عدالت میں کہا کہ میں نے برطانیہ، آسٹریلیا کینیڈا وغیرہ کا ریکارڈ نکالا لیکن جنوبی ایشیا کا نہیں،جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ ملک میں ایمرجنسی نافذ ہو بنیادی حقوق معطل ہوں تو کیا سویلینز کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل ہو سکتا ہے؟ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ 21 ویں آئینی ترمیم کا فیصلہ دیکھیں، مسلح افواج پر ہتھیار اٹھانے والوں پر آرمی ایکٹ کے نفاذ کا ذکر ہے،

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آرمی ایکٹ کے دیباچہ میں لکھا ہے کہ اس کا مقصد فورس میں ڈسپلن قائم کرنا ہے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اکیسویں ترمیم ان سے متعلق تھی جو فوج کیخلاف ہتھیاراٹھائیں، وکیل سلمان اکرم راجہ نے عدالت میں کہا کہ عدالتی نظام میں ایسی کیا خامی ہے جو فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہو؟ آرمی ایکٹ کے سویلینز پر اطلاق کا جائزہ 1975 کے بعد پہلی مرتبہ لیا جا رہا ہے، انصاف تک رسائی ہر شخص کا بنیادی حق ہے،سماعت سوا دو بجے تک ملتوی کر دی گئی ،وقفے کے بعد سلمان اکرم راجہ دلائل مکمل کرینگے چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل عذیر بھنڈاری نے اپنے تحریری دلائل عدالت کو پیش کر دیے

فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیخلاف درخواستوں پر وقفے کے بعد سماعت شروع ہوئی تو سلمان اکرم راجہ نے دلائل کا آغاز کر دیا وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ آرمی ایکٹ میں ریٹائرڈ آرمی افسران کے علاوہ سویلینز کو بھی شامل کیا گیا ہے، سویلینز کو آرمی ایکٹ کے دائرے میں شامل کیا گیا ہے اس لیے قانون کو چیلنج کیا ہے عدالت پر چھوڑتا ہوں کہ سویلینز کو آرمی ایکٹ کے دائرے میں ہونے پر کیسے دیکھتے ہیں ،سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل آئین کے بنیادی ڈھانچے کیخلاف ہے، عدالت سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل پر مبنی قانونی شقیں کالعدم قرار دے

سیاسی مقاصد کے اہداف اور خواہشات کے حصول کی بات نہ کریں،چیف جسٹس کا عمران خان کے وکیل سے مکالمہ
وکیل چیئرمین پی ٹی آئی عزیز بھنڈاری نے کہا کہ ہم تمام درخواست گزاروں کو سپورٹ کرتے ہیں، ہم چاہتے ہیں اوپن ٹرائل ہو، اگر کوئی قصور وار ہے تو اسے سزا ملنی چاہیئے ، 9 مئی کے واقعات کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا جائے ، چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سیاسی مقاصد کے اہداف اور خواہشات کے حصول کی بات نہ کریں، آپ صرف قانون کی بات کریں، سماعت کل صبح ساڑھے نو بجے تک ملتوی کر دی گئی،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ توقع کرتے ہیں سپریم کورٹ میں درخواستوں ہر سماعت مکمل ہونے تک ملٹری کورٹس میں کوئی ٹرائل نہیں چلے گا گرفتار افراد کی مکمل تفصیلات فراہم کریں کہا جا رہا ہے کہ ملزمان کو اہلخانہ سے بھی ملنے نہیں دیا جا رہا ؟ خوراک اور کتابوں کی عدم فراہمی کی بھی کچھ شکایات ہیں 102 زیر حراست افراد کو ایلخانہ سے ملنے کی اجازت دی جائے گی

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ خاندان کو کیوں قیدی بنایا گیا ہے۔ درخواست گزار جنید رزاق کی فیملی کب سے قید میں ہے۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ 9 مئی سے ارم رزاق و دیگر کا کچھ پتہ نہیں چل رہا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اتنے دن گزر گئے ابھی تک کچھ پتہ نہیں۔ اٹارنی جنرل سے آپ اس معاملے کو دیکھیں۔ ان کو خاندان سے ملنے کی اجازت دیں۔ یہ شکایت کس کی جانب سے تھی۔خاندانوں کو کیوں اٹھایا ہے۔ مجھے توقع ہے کہ عدالتی کارروائی مکمل ہونے تک کوئی ملٹری ٹرائل نہیں ہوگا۔ کسی کو کوئی شکایت ہے تو نام بتادیں میں متعلقہ حکام سے بات کرنے کی کوشش کرونگا۔ وکیل لطیف خان کھوسہ نے کہا کہ وکیلوں تک رسائی بھی نہیں دی جارہی۔نہ خاندان کو ملنے دیا جاریا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ مجھے نام بتادیں تو میں اگے بات کرونگا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل ذاتی طور پر اس معاملے کو دیکھیں۔ سماعت کل صبح ساڑھے نو بجے تک ملتوی کرتے ہیں۔

فوجی عدالتوں میں ٹرائل کیخلاف اعتزاز احسن نے درخواست دائر کی
واضح رہے کہ سپریم کورٹ میں سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کیخلاف اعتزاز احسن نے درخواست دائر کی ، دائر درخواست میں سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کو غیر آئینی قرار دینے کی استدعا کی گئی ،اعتزاز احسن کی طرف سے وکیل سلمان اکرم راجہ نے درخواست دائر کی، سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں استدعا کی گئی کہ وفاقی حکومت کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔ وفاقی حکومت نے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے کور کمانڈر فیصلہ پر رپڑ اسٹمپ کا کردار ادا کیا۔سویلین کا ٹرائل آرمی ایکٹ کے سیکشن 2 اور 59 آئین سے متصادم ہیں آرمی ایکٹ قانون کے سیکشن 2 اور 59 کو کالعدم قرار دیا جائے آرمی ایکٹ کا سیکشن 94 اور 1970 کے رولز غیر مساوی ہے۔سیکشن 94 اور رولز کا بھی غیرآئینی قرار دیا جائے انسداد دہشت گرد عدالتوں کے ملزمان کو عسکری حکام کے حوالے کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے، عسکری حکام کے حراست میں دئیے سویلین کی رہائی کا حکم دیا جائے ،سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں شہباز شریف، خواجہ آصف، رانا ثناءاللہ، عمران خان، پانچوں آئی جیز، تمام چیف سیکرٹریز، وزارت قانون، داخلہ، دفاع، کابینہ ڈویژن کو فریق بنایا گیا ہے

 کسی سویلین کا ٹرائل ملٹری کورٹ میں نہیں ہونا چاہیے

کرپشن کا ماسٹر مائنڈ ہی فیض حمید ہے

برج کھیل کب ایجاد ہوا، برج کھیلتے کیسے ہیں

عمران خان سے اختلاف رکھنے والوں کی موت؟

حضوراقدس پر کوڑا بھینکنے والی خاتون کا گھر مل گیا ،وادی طائف سے لائیو مناظر

برج فیڈریشن آف ایشیا اینڈ مڈل ایسٹ چیمپئن شپ مہمان کھلاڑی حویلی ریسٹورنٹ پہنچ گئے

کھیل سے امن کا پیغام دینے آئے ہیں.بھارتی ٹیم کے کپتان کی پریس کانفرنس

وادی طائف کی مسجد جو حضور اقدس نے خود بنائی، مسجد کے ساتھ کن اصحاب کی قبریں ہیں ؟

9 مئی کے بعد زمان پارک کی کیا حالت ہے؟؟

واضح رہے کہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں جلاؤ گھیراؤ ہوا، تحریک انصاف کے کارکنان کی جانب سے فوجی تنصیبات پر حملے کئے گئے، حکومت کی جانب سے فیصلہ ہواکہ حملے کرنیوالے تمام شرپسندوں کے مقدمے ملٹری کورٹ میں چلائے جائیں گے

Shares: