بھارت میں آٹھ سالہ بیٹی کو اس کے والد سے اس وجہ سے الگ کر دیا گیا کیونکہ وہ اسے گھر کا بنایا ہوا کھانا فراہم نہیں کر رہا تھا۔ اس معاملے میں بھارتی سپریم کورٹ کے ججوں جسٹس وکرم ناتھ، سنجے کارول اور سندیپ مہتا نے بیٹی سے بات کی اور اس کی ماں کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا۔

سپریم کورٹ میں پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق، والد جو کہ ایک مصروف پیشہ ور شخص ہیں، نے ایک پورے پندرہ دنوں کے دوران اپنی بیٹی کو گھر کا کھانا نہیں دیا تھا۔اس سے پہلے یہ معاملہ کیرالہ ہائی کورٹ میں پہنچا تھا جس نے والد کو ہر ماہ پندرہ دن اپنی بیٹی سے ملنے کی اجازت دی تھی۔والد سنگاپور میں کام کرتے ہیں اور انہوں نے ایک گھر کرایہ پر لے رکھا تھا جہاں وہ اپنی بیٹی کے ساتھ پندرہ دن ہر مہینے گزارتے تھے۔ وہ ہر دو ہفتے بعد سنگاپور سے آتے تاکہ اپنی بیٹی کے ساتھ وقت گزار سکیں۔سپریم کورٹ نے کہا کہ اگرچہ وہ ایک محبت کرنے والے والد ہیں، لیکن ان کے گھر کا ماحول اور حالات بچی کی نشوونما اور فلاح کے لیے مناسب نہیں ہیں۔ جج سندیپ مہتا نے کہا کہ مسلسل ریسٹورنٹس اور ہوٹلز سے خریدا گیا کھانا نہ صرف ایک بالغ شخص کے لیے بلکہ آٹھ سالہ بچی کے لیے بھی صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔سپریم کورٹ نے مزید کہا کہ بچی کی صحت، نشوونما اور ترقی کے لیے اسے گھر کا کھانا ضروری ہے، اور افسوس کی بات یہ ہے کہ والد اسے ایسی غذائیت فراہم کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔

عدالت نے کہا کہ اگرچہ وہ والد سے گھر کا کھانا فراہم کرنے کو کہہ سکتے تھے، لیکن یہ حقیقت کہ پندرہ دن کی عبوری حوالگی کے دوران بچی کو والد کے علاوہ کسی اور کا ساتھ نہیں مل رہا تھا، اس بات کو مزید اہمیت دی کہ اس وقت بچی کی حوالگی کے حق میں فیصلہ نہیں دیا جا سکتا۔اس کے علاوہ، بچی کی ماں اپنے والدین کے ساتھ رہتی ہیں اور گھر سے کام کرتی ہیں۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ بچی کو اپنی ماں کے گھر بہتر ماحول ملے گا، جہاں اس کا چھوٹا بھائی بھی موجود ہے۔

سپریم کورٹ نے کیرالہ ہائی کورٹ کے حکم پر بھی مایوسی کا اظہار کیا جس کے تحت والد کو ہر ماہ پندرہ دن کے لیے اپنے تین سالہ بیٹے کی حوالگی دی گئی تھی۔ سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو "انتہائی غیر منصفانہ” قرار دیا، کیونکہ اس کا بیٹے کی جذباتی اور جسمانی صحت پر منفی اثر پڑ سکتا ہے، کیونکہ اسے کم عمر میں اپنی ماں سے جدا کیا جا رہا تھا۔عدالت نے کہا کہ ماں کے گھر میں بچے کو جذباتی اور اخلاقی حمایت زیادہ مل رہی ہے، جبکہ والد کے ساتھ عبوری حوالگی کے دوران اتنی مدد فراہم نہیں ہو رہی۔عدالت نے یہ بھی کہا کہ بیٹی کے والد کے ساتھ پندرہ دن گزارنے سے اس کے تین سالہ بھائی کو اس کی صحبت سے محروم رکھا جا رہا ہے۔فیصلے میں سپریم کورٹ نے والد کو ہر ماہ متبادل ہفتہ میں اپنی بیٹی کی عبوری حوالگی کی اجازت دی ہے اور اس سے کہا ہے کہ وہ ہر ہفتے دو دن اپنی بیٹی کے ساتھ ویڈیو کال کے ذریعے بات چیت کریں۔

Shares: