جو معاملات ریاستِ پاکستان کے وقار سے وابستہ ہوں، وہاں ذاتی پسند و ناپسند، سیاسی وابستگیوں یا انفرادی رائے کو بالائے طاق رکھنا قومی فرض بن جاتا ہے۔افسوس کا مقام ہے کہ بعض طبقات نے حب الوطنی کے اس بنیادی اصول کو فراموش کر دیا ہے۔ حالیہ ایشیا کپ کی اختتامی تقریب میں پیش آنے والے واقعے کو جس انداز سے موضوعِ بحث بنایا جا رہا ہے، اس نے ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ کیا ہم واقعی ایک قوم کی صورت میں سوچنے کے قابل رہ گئے ہیں؟ اس تقریب میں چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ، محسن نقوی، صرف ایک شخص نہیں تھے۔وہ پاکستان کی نمائندگی کر رہے تھے۔ انکے ہاتھ میں موجود ٹرافی محض ایک کرکٹ سیریز کا انعام نہیں، بلکہ اس ریاست کے وقار کی علامت تھی جس کی بنیاد قربانیوں پر رکھی گئی۔ جب بھارتی ٹیم نے ان سے ٹرافی لینے سے انکار کیا، تو یہ انکار کسی فرد کا نہیں، ایک ریاست کے وقار کا انکار تھا۔ یہ عمل نہ صرف سفارتی آداب کے منافی تھا بلکہ کرکٹ جیسے شائستہ کھیل کی روح کے بھی برخلاف تھا۔ایسے میں چیئرمین پی سی بی نے جو ردعمل دیا، وہ کسی ہنگامی جذباتی فیصلہ نہیں تھا بلکہ ایک اصولی مؤقف تھا۔ "اگر آپ ہم سے ٹرافی نہیں لینا چاہتے، تو پھر یہ آپ کو کسی اور سے بھی نہیں ملے گی” یہ ایک سادہ سی بات نہیں، بلکہ وہ جملہ تھا جس نے برصغیر میں روایتی طور پر بھارتی بالا دستی کے تصور کو چیلنج کیا۔

برسوں سے یہ روایت رہی ہے کہ بھارت جو چاہے،جیسے چاہے، ویسا کرے اور باقی ممالک اس کے فیصلے کو خاموشی سے تسلیم کر لیں۔ مگر اس بار ایک پاکستانی نمائندے نے، اپنے ادارے کی سطح پر، غیرتِ قومی اور ریاستی وقار کو پہلی ترجیح دیتے ہوئے روایت کو توڑا۔بدقسمتی سے، داخلی سطح پر بعض عناصر نے اس جرات مندانہ اقدام کو ذاتی انا سے تعبیر کیا۔ کچھ نے اسے محض "محسن نقوی کے خلاف احتجاج” کا رنگ دے کر معاملے کی سنگینی کو کم کرنے کی کوشش کی۔ کیا ہم یہ بھول گئے ہیں کہ بین الاقوامی فورمز پر شخصیات کے پیچھے ریاستیں کھڑی ہوتی ہیں؟ کیا ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت نہیں کہ اگر آج ایک پاکستانی نمائندے کو نظرانداز کرنا آسان سمجھا گیا تو کل یہ طرزِ عمل پاکستان کے صدر یا وزیراعظم کے ساتھ بھی دہرایا جا سکتا ہے؟ یہ وہ موقع تھا جب قوم کو ایک آواز میں بولنا چاہیے تھا، اورکہنا چاہیے تھا کہ "نہیں، یہ پاکستان کی توہین ہے اور ہم اسے برداشت نہیں کریں گے”۔ جو لوگ اس وقت محسن نقوی کے خلاف بیان بازی کر رہے ہیں، اگر یہی ٹرافی کسی غیر ملکی نمائندے کے ذریعے دی جاتی اور محسن نقوی پیچھے ہٹ جاتے تو یہی حلقے اسے کمزوری اور غلامانہ ذہنیت سے تعبیر کرتے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے اس بار خاموشی اور نرمی کے بجائے، ایک واضح اور دوٹوک پیغام دیا ہے۔ یہ صرف ایک واقعہ نہیں بلکہ ایک علامت ہے۔ علامت اس تبدیلی کی، جس کی اس قوم کو مدتوں سے ضرورت تھی۔ وہ تبدیلی جو ہمیں اپنے قدموں پر کھڑے ہونے کا حوصلہ دے، جو ہمیں بتائے کہ وقار پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔ بھارت کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ اب ہر محفل میں صرف ان کی مرضی نہیں چلے گی۔ یہ وقت قوم کی پشت پر کھڑے ہونے کا ہے۔ اگر آج ہم نے اپنی قیادت، اپنے اداروں اور اپنے فیصلوں کا دفاع نہ کیا تو کل کو ہمیں ہر سطح پر پسپائی اختیار کرنا پڑے گی۔ دنیا صرف ان کا احترام کرتی ہے جو اپنی خودداری کا بھرم رکھتے ہیں، اور یہی وہ پیغام ہے جو پاکستان نے اس چھوٹے سے واقعے کے ذریعے دیا ہے۔محسن نقوی کی ذات اس تحریر کا محور نہیں۔ اصل نقطہ یہ ہے کہ اگر ایک ادارہ ملکی وقار کے لیے کھڑا ہو، تو ہم سب کو اس کی پشت پر کھڑا ہونا چاہیے۔ ہمیں ان رویوں کو ترک کرنا ہوگا جو ہر قومی عمل کو تنقید، تمسخر یا تعصب کے آئینے میں دیکھتے ہیں۔

اب وقت ہے کہ ہم اپنی فکری آزادی کو ریاستی وقار سے ہم آہنگ کریں۔ یہ کوئی سیاست کا سوال نہیں، یہ حب الوطنی کا تقاضا ہے۔ اب ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ ہم ہر موقع پر مخالف سمت کھڑے ہو کر صرف تنقید کا چراغ جلاتے رہیں گے یا پھر ایک قوم کی طرح، ایک جھنڈے کے نیچے، ایک مؤقف کے ساتھ دنیا کو یہ پیغام دیں گے کہ پاکستان کا پرچم سرنگوں نہیں ہوتا اور نہ ہی ہم کسی قیمت پر وقارِ وطن پر سمجھوتہ کریں گے۔

Shares: