میری بیٹی کتابی ہے، یعنی bookish knowledge پر انحصار کرتی ہے، ریڈنگ سے رغبت ہے، دو تین روز میں کتاب ختم کر دیتی ہے۔ جبکہ بیٹا visual اور auditory ہے، یعنی سمعی اور بصری آلات پر انحصار کرتا ہے، مشاہدہ بہت تیز ہے۔ کتاب سے اُسے چڑ ہے۔ وہ یوٹیوب چینل Zem TV کی ویڈیوز دیکھتا رہتا ہے، نیز فیصل وڑائچ کے تینوں یوٹیوب چینلز اور جانے کیا سے کیا۔
اگر زیادہ آگاہی اور زیادہ علم کی بات کروں تو بیٹا سبقت لے جاتا ہے۔ تاہم، بیٹی کی اپنی سی دنیا ہے جہاں معتبر اور زیادہ لطف آگیں ذریعہِ علم بہرحال ریڈنگ ہے۔
اگر آپ ایک کمرہِ جماعت میں موجود 30 عدد بچوں کو بہ نظرِ غائر دیکھیں، اُن کا مزاج جاننا چاہیں تو بمشکل چھ سات بچے کتابی مزاج کے حامل ہوں گے۔دیگر بچے auditory learners اور visual learners ہوں گے، بعض kinesthetic learners ہوں گے جو متحرّک رہ کر عملاً کچھ پرفارم کرتے ہوئے سیکھتے ہیں۔
بعض بچے ان تینوں اقسام کا مرکّب ہوں گے تو بعض سمعی و بصری یعنی دو قسموں کا مرکّب۔
یہ تجزیہ کیا جانا بہت ضروری ہے کہ کس بچے کا لرننگ سٹائل کیا ہے۔
لیکن مروّجہ نظامِ تعلیم اس بات کا اسکوپ نہیں رکھتا کہ ایک استاد ایسی تحقیق میں عملاً دلچسپی لے، اور بچوں کو اُن کے مزاج کے باوصف متعلقہ ذرائع علم تک رسائی کا موقع اور ایکسپوژر دے۔ اس موضوع پر تربیتی ورکشاپس میں بات تو کی جاتی ہے، مگر عملاً اس کا اسکوپ تقریباً ناپید ہے۔
دیکھا جائے تو وقت پوری طرح سے بدل گیا ہے۔ نئی نسل کا مزاج مختلف ہے، یہ پردہِ سکرین اور کِی بورڈ سے جڑا ہے۔ سکرین اور کِی بورڈ کا استعمال آکسیجن یا ہوا کی طرح ہر سُو محیط ہو چکا۔
اِس تناظر میں نہ صرف یہ کہ علم کی ڈیجی ٹائیزیشن کا عمل بہت ضروری ہے، بلکہ تحریری امتحان والے ٹرینڈ کو کم کر دینا بھی ضروری ہے۔
یعنی ایک طرف بیشتر نصابی مواد کوکتاب کے دامن سے کھینچ کر اُسے ویڈیوز شکل میں پیش کرنے کا اہتمام کیا جائے۔ کمرہِ جماعت میں ویڈیوز چلا کر وقفے وقفے سے بات چیت کرنے اور سوالات پوچھنے والا فارمیٹ اپنا جائے۔ دوسری طرف، بچے کے ہاں مقدارِ علم و ہنر کی جانچ کے پیمانے بھی اب بدل دئیے جائیں۔
ایک اور اہم مسئلہ سائنسز اور میتھ سے متعلق غیرضروری مواد کی کانٹ چھانٹ کا ہے۔ سیکنڈری سکول سطح پر فزکس، کیمسٹری، بائیولوجی، اور میتھ کی کتابوں میں غیرضروری مواد بھرا ہے۔ بہت بورنگ ہے یہ!
اس سطح پر ایک تو یہ مواد کم کیا جائے۔ دوسرے، بیشتر مواد کو ویڈیوز اور کوئزز کی شکل میں پیش کرتے ہوئے سیکھنے کے عمل کو دلچسپ اور آسان بنایا جائے۔
تیسرے، اس میں سے نصف مواد کو تجربہ کے عمل سے جوڑ دیا جائے۔ بچے نویں اور دسویں جماعت میں ہر سال ایک سو چھوٹے بڑے تجربات کریں۔ اور آٹھ دس عدد پراجیکٹس بھی۔ پراجیکٹس میں بچوں کا تحرّک دیدنی ہوتا ہے۔ اُن کی ذہانت و صلاحیت کو کھل کھیلنے کا موقع ملتا ہے۔ اُن کی کارکردگی حیران کن ہوا کرتی ہے۔
مگر بات یہ ہے کہ بات کس سے کی جائے؟
کسے وکیل کریں، کس سے منصفی چاہیں