میں تو لمحات کی سازش کا نشانہ ٹھہرا
تو جو ٹھہرا تو ترے ساتھ زمانہ ٹھہرا
اردو کے نامور شاعر محمد فاروق شمیم 30؍مئی 1953ء کو اورنگ آباد، مہاراشٹر میں پیدا ہوئے۔ ان کا پہلا مجموعہ کلام ”پیشِ رو غزلیں“ 2000ء میں شائع ہوا ۔
فاروق شمیمؔ صاحب کے منتخب کلام نذر قارئین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر ایک لفظ میں پوشیدہ اک الاؤ نہ رکھ
ہے دوستی تو تکلف کا رکھ رکھاؤ نہ رکھ
ہر ایک عکس روانی کی نذر ہوتا ہے
ندی سے کون یہ جا کر کہے بہاؤ نہ رکھ
یہ اور بات زمانے پہ آشکار نہ ہو
مری نظر سے چھپا کر تو دل کا گھاؤ نہ رکھ
حصارِ ذات سے کٹ کر تو جی نہیں سکتے
بھنور کی زد سے یوں محفوظ اپنی ناؤ نہ رکھ
یہ انکسار مبارک شمیمؔ تجھ کو مگر
اب اتنا شاخ ثمر دار میں جھکاؤ نہ رکھ
▬▬▬
میں تو لمحات کی سازش کا نشانہ ٹھہرا
تو جو ٹھہرا تو ترے ساتھ زمانہ ٹھہرا
آنے والے کسی موسم سے ہمیں کیا لینا
دل ہی جب درد کی خوشبو کا خزانہ ٹھہرا
یاد ہے راکھ تلے ایک شرارے کی طرح
یہ جو بجھ جائے ہواؤں کا بہانہ ٹھہرا
جھوٹ سچ میں کوئی پہچان کرے بھی کیسے
جو حقیقت کا ہی معیار فسانہ ٹھہرا
عکس بکھرے ہوئے چہروں کے ہیں ہر سمت شمیمؔ
دل ہمارا بھی کوئی آئنہ خانہ ٹھہرا
══════
سلسلے خواب کے اشکوں سے سنورتے کب ہیں
آج دریا بھی سمندر میں اترتے کب ہیں
وقت اک موج ہے آتا ہے گزر جاتا ہے
ڈوب جاتے ہیں جو لمحات ابھرتے کب ہیں
یوں بھی لگتا ہے تری یاد بہت ہے لیکن
زخم یہ دل کے تری یاد سے بھرتے کب ہیں
لہر کے سامنے ساحل کی حقیقت کیا ہے
جن کو جینا ہے وہ حالات سے ڈرتے کب ہیں
یہ الگ بات ہے لہجے میں اداسی ہے شمیمؔ
ورنہ ہم درد کا اظہار بھی کرتے کب ہیں