کیا ارطغرل مسلمان تھا ؟ پروفیسر ڈاکٹر فراز انجم شعبہ تاریخ پنجاب یونیورسٹی کی تحقیق

0
105

‏کیاارطغرل مسلمان تھا؟

تاریخ کے ایک پروفیسر صاحب نےدرج ذیل نکات پہ روشنی ڈالی:

سوشل اورالیکٹرونک میڈیا پر ترکی ڈرامہ”ارطغرل” کا خوب چرچا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ اسلامی تاریخ کے سنہری دور کی کہانی ہے اور پاکستانیوں کو اپنی تاریخ سے روشناس کرانے کے لیے یہ ڈرامہ ضرور دیکھتا چاہیے۔

‏ترکی کی تاریخ پر ایک بڑا علمی کام چار ضخیم جلدوں پر مشتمل

Cambridge History of Turkey

ہے، جس کی تدوین میں ترک/عثمانی تاریخ پر اتھارٹی پروفیسر ثریا فاروقی معاون مدیر کے طور پر اور انکے علاوہ دیگر ترک مؤرخین بھی شامل تھے۔ اس کی پہلی جلد میں جو ۱۰۷۱ء سے۱۴۵۳ء کے زمانےسے متعلق ہے، ارطغرل کانام صرف ایک جگہ، صفحہ ۱۱۸ پر، مذکورہے۔ مصنف کےنزدیک ارطغرل کے بارے میں ہم کچھ نہیں جانتے اور اسکی موجودگی کا پتا اسکے بیٹے عثمان کےایک سکے سےچلتا ہے۔ مصنف کےالفاظ ہیں:

We know nothing about the life of Ertugrul, and his existence is independently attested only by a coin of his son Osman.

‏اردومیں اس سلسلے میں سب سے زیادہ معروف اور پڑھی جانے والی کتاب ڈاکٹر محمد عزیر کی دوجلدوں پر مشتمل کتاب "دولت ِ عثمانیہ” ہے۔ مشہور علمی ادارے دارلمصنفین، اعظم گڑھ، کی شائع کردہ اس تاریخ کا دیباچہ سید سلیمان ندوی نے لکھا اور اس کتاب کا مقصد مسلمانانِ ہند کو ترکوں کے کارناموں سے روشناس کرانا تھا۔

‏ڈاکٹر عزیر تسلیم کرتےہیں کہ سلیمان شاہ اور ارطغرل غیر مسلم تھے اور قبیلہ کا پہلا شخص جس نےاسلام قبول کیا ارطغرل کا بیٹا عثمان تھا۔ وہ ایک مغربی مؤرخ کی شہادتیں پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"تیرہویں صدی عیسوی کی ابتداء میں خراسان اورماوراء النہر کے دوسرے علاقوں کی جوقومیں ایشیائے کوچک کی سرحدوں پر نمودار ہوئیں، ‏ان کے اسلام لانے کا کوئی صریحی ذکر کسی تاریخ میں نہیں ملتا۔ خود عثمانیوں کے مؤرخ نشری کے بیان سے بھی صاف اشارہ ملتا ہے کہ عثمان کا مورث ِ اعلیٰ سلیمان شاہ اور اس کے ساتھی، جو اپنے وطن سے نکل کھڑے ہوئے، غیرمسلم تھے۔

بارہویں صدی عیسوی اور اس کےبعد کے سیاحوں کی بکثریت شہادتوں سےبھی ‏یہ معلوم ہوتاہےکہ یہ قومیں بت پرست تھیں، ان مختلف ترکی قبیلوں نےجواس زمانےمیں ایشیائےکوچک میں داخل ہوئے اپنے آپ کو ایک اسلامی ماحول میں پایا۔ عثمان اوراس کےقبیلہ کےاسلام لانے سےعثمانی قوم پیداہوئی۔ اس تبدیلِ مذہب ہی کا نتیجہ تھا کہ ۶۸۹ھ (۱۲۹۰ء) کے بعد عثمان کی فاتحانہ سرگرمیاں شروع ہو گئیں۔

‏ارطغرل اور عثمان ایک دیہاتی سردار کی حیثیت سےسغوت میں سیدھی سادھی زندگی بسرکرتےتھے، ان کی اس زمانہ کی کسی جنگ یا فتح کا ذکر تاریخ میں موجود نہیں۔ ارطغرل کےتعلقات اپنےپڑوسیوں کے ساتھ بالکل صلح ودوستی کےتھے۔ نشری کابیان ہےکہ اس ملک کےکافر و مسلم دونوں ارطغرل اوراس کےلڑکےکی عزت کرتے تھے۔ ‏کافر و مسلم کاکوئی سوال ہی نہ تھا۔ پھر دفعتاً ہم عثمان کواپنے پڑوسیوں پرحملہ آور ہوتے اور انکے قلعوں کو فتح کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ ان لوگوں میں ایک ایسا تبلیغی جوش ہے جو صرف ان ہی لوگوں میں پایا جاتا ہے جنہوں نےحال ہی میں مذہب تبدیل کیا ہو”۔

ان دو مستند کتابوں کی شہادت ہی یہ ثابت کرنے کے لیےکافی ہے کہ ڈرامے کے ‏ارطغرل کا تاریخ کے ارطغرل سےکوئی تعلق نہیں۔ تاریخ کا ارطغرل تو شاید مسلمان بھی نہیں تھا اور اگر مسلمان تھا بھی تو صلیبیوں اور منگولوں کےخلاف جہاد کی وہ ساری تفصیلات جوڈرامہ کی زیب و زینت ہیں، تاریخی شواہد سےثابت نہیں۔ ڈرامہ آپ کو پسند ہے تو اسے فکشن/افسانہ سمجھ کر ضرور دیکھئے، ‏لیکن خدارا اسے اسلام کا ڈرامہ نہ بنائیے۔

ڈاکٹر فراز انجم، پروفیسرفراز انجم ،شعبہ تاریخ پنجاب یونیورسٹی۔

Leave a reply