کیا یہی تھا پاکستان !
تحریر:نگہت فرمان
خواب، خواب ہی رہتا ہے جب تک تعبیر نہ ہوجائے اور خواب تعبیر پاتے ہی مجسم ہوجاتا ہے۔ لیکن ٹھہریے! دم لیجیے! خواب کیا ہوتا ہے ؟ خواب تو سرمایہ ہوتے ہیں، لیکن پھر یہ بھی کہ جو بڑا خواب دیکھے تو اس کی تعبیر بڑی ہوتی ہے اور وہ خواب جو صرف اپنے لیے دیکھے جائیں تو ہوتے تو خواب ہی ہیں لیکن بس محدود،ڈاکٹر اقبال کو مصور پاکستان بھی کہتے ہیں ناں ، کیوں! اس لیے کہ انھوں نے پاکستان کا خواب دیکھا تھا، تو بس جتنا بڑا خواب اتنی بڑی تعبیر۔
اقبال نے ایک اور خواب بھی دیکھا تھا ، وہ یہ کہ خود ان کی زبانی:
خدایا آرزو میری یہی ہے
مرا نور بصیرت عام کردے
اور پھر ان کے اس خواب نے بھی تعبیر پائی کہ آج دنیا بھر کی جامعات میں اقبال کے افکار و شاعری پر تحقیق ہورہی ہے۔
اقبال نے پاکستان کا خواب دیکھا اور اس کی تعبیر ہمارے سامنے ہے۔ اب یہ تعبیر کیسی ہے یہ تو ہم سبھی جانتے ہیں۔

خواب سرمایہ ہوتے ہیں! اور پھر خواب دیکھنے پر کوئی پابندی بھی نہیں لگائی جاسکتی، تقریر پر تحریر پر تو پابندی لگائی جاسکتی ہے اور اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کو پابند سلاسل کیا جا سکتا ہے لیکن خواب پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی کسی صورت بھی نہیں۔ پانی کی طرح خواب اپنا رستہ خود نکال لیتا ہے، خواب روایات، رسم و رواج اور سرحدوں کے پابند نہیں ہوتے۔ پنچھی کی طرح ہوتا ہے خواب تو۔ خواب بس خواب ہوتے ہیں کسی ضابطے سے پَرے۔ کوئی ریا کار ہو سکتا ہے لیکن خواب نہیں۔ اس پر کوئی بھی کسی طرح کی بھی پابندی نہیں لگا سکتا ، لگا ہی نہیں سکتا، مجبوری کہہ لیں، بے بسی بھی۔
کیا ہم خواب کو کسی باغی سے تشبیہ دے سکتے ہیں؟

یقیناً خواب باغی ہوسکتے ہیں، اگر اسے موضوع بنایا تو بات بہت دور تلک چلی جائے گی تو بس واپس آتے ہیں۔ تو اقبال نے پاکستان کا خواب دیکھا۔ حالات کیسے تھے، ناممکن تھا پاکستان ، کوئی امید نہیں، بے سرو سامانی، بے کسی اور بے بسی۔ لیکن اقبال گھٹا ٹوپ اندھیرے میں اپنا جگنو لے کر نکلے۔ خواب دیکھا اقبال نے اور اسے تعبیر دینے کے لیے قدرت نے محمد علی جناح کو منتخب کیا جو قائد اعظم کہلائے۔ ایسا قائد جو اردو میں اپنا مطمع نظر بیان نہیں کر سکتا تھا اسے قدرت نے منتخب کیا۔

ایک واقعہ بہت مشہور ہے کہ قائد اعظم تقریر کر رہے تھے اور ایک دیہاتی سر دھن رہا تھا، کسی نے پوچھا آپ کو انگریزی آتی ہے تو بس اتنا کہا: ”مجھے انگریزی نہیں آتی، میں تو بس اتنا جانتا ہوں کہ قائد جو کچھ بھی کہہ رہے ہیں بالکل سچ کہہ رہے ہیں۔

جی! میرے خوابوں کا محور و مرکز بھی پاکستان تھا، ہے اور رہے گا۔ لیکن کیسا پاکستان …؟ پاکستان! جہاں بلند بالا پہاڑ ہیں، وادیاں ہیں، گلیشیرز ہیں۔ جھیلوں کا شفاف پانی۔ پاکستان میں پانچ دریا اور پانچ ہی موسم میں جو خوبانی سے کھجور تک میں ہمیں خود کفیل بناتے ہیں۔ جہاں زمیں سونا اگلتی ہے۔

یہ وطن جو جغرافیائی لحاظ سے 1947 میں منصہ شہود پر آیا اپنے قیام سے پہلے اپنے وقت کے عظیم لوگوں کا خواب تھا۔ وہ عظیم لوگ جنہوں نے تاریخ عالم پر ایسے ان مٹ نقوش ثبت کیسے ہیں کہ اصول پسندی و استقامت کو اس کے اصل معانی سے روشناس کروا گئے۔ یہ پاک وطن ان عظیم المرتبت ہستیوں کا عظیم خواب تھا جو ان کی محنت شاقہ کی بہ دولت اپنی تعبیر پا گیا لیکن آج اگر میں اپنی انفرادی حیثیت میں اس مادر وطن کے لیے دیکھ جانے والے خوابوں کا تقابل ان عظیم خوابوں سے کروں تو جو اس کے بانیان نے اس کے لیے دیکھے تو ندامت کا احساس میرے قلم کی روانی میں حائل ہو جاتا ہے۔
نوبت یہاں تک کیوں اور کیسے آگئی؟

وہ پاکستان کہ جس کی اقتصادی ترقی کی رفتار دنیا کے بہت سے ممالک کے لیے قابل تقلید ہوا کرتی تھی۔ جس کے ماہرین معاشیات کو ریا، ملائشیا اور انڈونیشیا جیسے ممالک کے ترقیاتی منصوبہ جات تیار کیا کرتے تھے۔ وہ پاکستان جس کی جامعات طب اور زراعت میں بڑی اعلی تحقیقات کے مراکز تھیں۔ پاکستان کی ایئر لائن ”با کمال لوگ لاجواب سروس“ کے سلوگن کی حامل اور جدید دور کی منافع بخش کمپنیوں کی معمار تھی۔ جس کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کا ایشیا بھر میں کوئی ثانی نہ تھا۔ آج بھی دنیا بھر کے کھلاڑی سیالکوٹ کے تیار کردہ کھیلوں کے سامان کے ساتھ میدان میں اترتے ہیں۔

وزیر آباد کے آلات جراحی مغرب کے جدید ترین اسپتالوں کی اہم ترین ضرورت تھے۔ وہ پاکستان کہ جس کی ڈرامے انتہائی کم وسائل کے باوجود اپنے پڑوسی ملک کی جدید ترین انڈسٹری سے بہت آگے تھے۔ وہ پاکستان کہ جو عالم اسلام میں اعتدال و رواداری کا نشان سمجھا جاتا تھا۔ اور وہ پاکستان کہ جس کا گورنر جنرل ایک اہم ٹیکس آفیسر کو اس لیے ڈانٹتا ہے کہ اس نے اسے وقت پر انکم ٹیکس ادا نہ کرنے پر نوٹس جاری کیوں نہیں کیا تھا۔ وہ پاکستان کہ جہاں مواخات مدینہ کے بعد بھائی چارے کی سب سے بڑی مثال دنیا نے دیکھی تھی۔

جی ہاں! یہی ہے میرے خوابوں کا پاکستان جو ماضی میں ایک حقیقت ہوا کرتا تھا لیکن اب یہ مستقبل کے لیے میرے خوابوں کا پاکستان ہے۔

ہم نے اس پاکستان کا کیا حال کردیا ہے۔ ہم سب اپنے خوابوں کے قاتل ہیں۔ ہم نے ترقی اور خوش حالی کے ان حقائق کو دوام دینے کی کوشش ہی نہیں کی کہ جن کی بنیاد پر میرے خوابوں کا پاکستان دنیا کے لیے قابل تقلید بن سکتا۔ نتیجا یہ کہ اب ہم”مضمحل ہیں اور ہمارا پاکستان مفلوج”۔

گمراہ اشرافیہ آسمان سے اترتی ہے نہ سیاسی جماعتیں۔ دہشت گرد زمین سے اگتے ہیں نہ غداران وطن۔ یہ سب طبقے ہم ہی میں سے ہیں لہذا میرے خوابوں کا پاکستان کسی کو مورد الزام ٹھہرانے کسی پر انگلی اٹھانے یا پھر کسی کوکو سنے سے ہرگز وجود میں نہ آئے گا۔ میرے خوابوں کا پاکستان تب وجود میں آئے گا جب ہم الزام تراشی کے اس رویے کو ترک کر کے دل و جان سے اس پاک وطن کے لیے خلوص اور چاہت سے کام کریں گے اور ہم سب کو سوچنا ہوگا کہ خوابوں کے پاکستان کے حصول کی منزل دور ہونے میں ہم انفرادی طور پر کس حد تک قصور وار ہیں۔ قوم کے افراد کا انفرادی کردار ہی مجموعی قومی شناخت بنتا ہے۔ اس وطن کی تقدیر ہمارے ہاتھوں میں ہے اور ہماری تقدیر اس کی سالمیت و ترقی سے وابستہ ہے۔

آئیے! اپنی پوری قوت و صلاحیت اسے مضبوط اور ترقی یافتہ بنانے پر صرف کیجیے تاکہ ہم قوموں کی صف میں باعزت مقام حاصل کر سکیں اور اگر ہم نے وطن کی ترقی کی طرف سے اغماض برتا تو تاریخ ہمیں حرف غلط کی طرح مٹا ڈالے گی۔

Shares: