شاہد ریاض خصوصی رپورٹ(باغی ٹی وی)
پشت پر جس نے بہت زخم لگائے ہیں وسیم
جھک کے ملتا ہے وہی چاہنے والوں کی طرح

وسیم راشد(معروف صحافی، ادیبہ،شاعرہ اوراینکر)
23 مارچ 1977: یوم پیدائش
شوہر کا نام:راشد شہاب
والد کا نام:حافظ عبدالوحید خاں
والدہ کا نام:سرور جہاں
جائے ولادت:دہلی
تعلیم:ایم اے (بی ایڈ)، پی ایچ ڈی ماس کمیونیکیشن
زبان:انگلش، ہندی، اردو
پیشہ:معلہ، صحافی، ٹی وی پروڈیوسر، اینکر
مشاغل:شاعری، نظامت، مقالے پڑھنا، ادبی سرگرمیوں میں حصہ لینا
موجودہ عہدہ:چیف ایڈیٹر ”صدا ٹوڈے“ نیوز پورٹل
ممبر گورننگ کونسل، دلی اردو اکادمی
سابق عہدے:سینئر پی جی ٹی اردو ،صدر شعبۂ اردو (نیو ہورائزن اسکول)وائس پرنسل، کریسنٹ اسکول دریا گنج، نئی دہلی
ایسوسی ایٹ پروڈیوسر (عالمی سہارا اردو) مدیر (چوتھی دنیا اردو) پرنسپل آور انڈیا انٹر نیشنل اسکول، کاندھلہ، یوپی

غیرملکی سفر:انگلینڈ، ایران، عراق، کویت، جدہ، پاکستان
تصنیفات:سرسید کے مخالفین(حقائق کی روشنی میں) 2018ء
ایوارڈ و اوعزازات

۔ (1)پرم شری میڈیا ایکسی لنسی ایوارڈ
۔ 2017ء-(برائے اردو صحافت)
۔ (2)رانی جھانسی لکشمی بائی ایوارڈ (برائے اردو صحافت)
۔ (3)ناہید صحافت (برائے اردو صحافت)
۔ (4)آفتابِ صحافت (برائے اردو صحافت)
۔ (5)مولانا ابواکلام آزادایوارڈ(برائے اردو صحافت)
۔ (6)قرۃ العین حیدر ایوارڈ (برائے اردو فکشن)
۔ (7)بہترین استاد ایوارڈ-2004ء(دلی اردو اکاڈمی)
۔ (8)بہترین استاد ایوارڈز 2004ء(نیو ہورائزن اسکول)
۔ (9)پروین شاکر ایوارڈ، پونہ (برائے اردو شاعری)
۔ (10)عصمت چغتائی ایوارڈ (برائے اردو ادب)
۔ (11)گولڈ میڈل، پوزیشن، دوئم ، ایم اے اردو، دہلی یونیورسٹی
۔ (12)مرزا غالب ایوارڈ( بی اے، اول پوزیشن، دہلی یونیورسٹی)
گھر کا پتا:C1/9، فلیٹ نمبر 401، چوتھا فلور پاکٹ 11، جسولہ وہار، نئی دہلی-25

غزل

تیرا خیال میری انجمن میں رہتا ہے
عجیب پھول ہے تنہا چمن میں رہتاہے
میں اس سے دور بھی جاؤں تو کس طرح جاؤں
وہ عطر بن کے میرے پیرہن میں رہتا ہے
وہ اپنی روح کے زخموں کو کس طرح گنتا
ہمیشہ الجھا ہوا وہ بدن میں رہتا ہے
تری تلاش میں تھک جاتے ہیں قدم لیکن
سکون قلب بھی شامل تھکن میں رہتا ہے
یہ بات سچ ہے نظریات جس کے چھوٹے ہوں
بڑے مکان میں بھی وہ گھٹن میں رہتا ہے
وسیم ہند کی مٹی میں کیسا جادو ہے
کہیں بھی جاؤں مرا دل وطن میں رہتا ہے

غزل

زندگی جن کی گزرتی ہے اجالوں کی طرح
یاد رکھتے ہیں انھیں لوگ مثالوں کی طرح
علم والوں کو کبھی موت نہیں آتی وہ
زندہ رہتے ہیں کتابوں کے حوالوں کی طرح
پشت پر جس نے بہت زخم لگائے ہیں وسیم
جھک کےملتا ہے وہی چاہنے والوں کی طرح

غزل

نہ وہ کہانی نہ اب داستان باقی ہے
بس ایک زخم کا دل پر نشان باقی ہے
تمھاری یاد کا سایہ تھا جب تلک سر پر
ہمیں بھی لگتا رہا آسمان باقی ہے
نہ کوئی آس نہ امید تیرے آنے کی
نہ جانے کس لیے آنکھوں میں جان باقی ہے
اسی لیے چلے آتے ہیں اس کے کوچےمیں
وہ چاہتا ہےہمیں یہ گمان باقی ہے
ہمیں نصیب تھا جیسا وسیم بچپن میں
نہ ویسا گھر ہے نہ وہ خاندان باقی ہے

غزل

دل کا قصہ نہ کبھی بیچ میں چھوڑا جائے
یہ ورق ایسا نہیں ہےجسے موڑا جائے
چاہے شیشہ ہو کہ کھلونا ہو کہ دل ہو میرا
اسکی قسمت میں ہی لکھا ہے کہ توڑا جائے
اپنی دہلی سے ہٹوادیے پتھر اس نے
میں پریشاں ہوں کہ سر اب کہاں پھوڑا جائے
بعد میں جوڑیں گے ہم ٹوٹے ہوئے جام وسبو
پہلے ٹوٹے ہوئے ہر رشتے کو جوڑا جائے
کیوں میرے اشکوں کی محفل میں نمائش ہو وسیم
کیوں بھری بزم میں آنچل کو نچوڑا جائے

Shares: