واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس حکومتی اداروں کی ناکامی کا آئینہ
تحریر: ملک ظفر اقبال بھوہڑ
زیرِ زمین پانی کا کڑوا اور کھارا پن ہونا ایک ایسا المیہ ہے جسے ہم سب آنکھیں بند کرکے دیکھ رہے ہیں۔ جی ہاں، میری مراد اُن سرکاری اداروں سے ہے جو اس کے ذمے دار ہیں لیکن ان کا کردار آٹے میں نمک کے برابر رہ گیا ہے۔ جہاں جہاں صنعتی علاقے (انڈسٹریل ایریاز) ہیں، وہاں زیرِ زمین پانی کڑوا اور آلودہ ہو چکا ہے اور مزید ہوتا جا رہا ہے۔ ادارے موجود ہیں مگر سوال یہ ہے کہ آخر یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے؟ اس کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
سب سے بڑی وجہ سرکاری اداروں کی نااہلی اور کرپشن ہے، جنہوں نے اس پورے نظام کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ قومی مفاد کے بجائے انفرادی سوچ نے ہمیں ڈبو دیا ہے۔ پانی زندگی کی بنیاد ہے، مگر افسوس کہ پاکستان میں یہی زندگی کا سرچشمہ زہر بن چکا ہے۔
ہمارے شہروں اور صنعتی علاقوں میں آلودہ پانی کا مسئلہ دن بدن سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ واٹر ٹریٹمنٹ کے لیے بنائے گئے حکومتی منصوبے ناکامی کی داستان بن چکے ہیں۔ اربوں روپے کے منصوبے صرف کاغذوں میں کامیاب نظر آتے ہیں، مگر زمین پر ان کی حالت بدترین ناکامی کی مثال ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی اور صنعتوں کے پھیلاؤ کے ساتھ صاف پانی کی فراہمی ایک نازک مسئلہ بن چکی ہے۔
حکومت نے مختلف شہروں میں واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس، فلٹریشن پلانٹس اور سیوریج ٹریٹمنٹ یونٹس کے قیام کے منصوبے شروع کیے تاکہ شہریوں کو آلودگی سے پاک پانی فراہم کیا جا سکے۔ مگر عملی طور پر یہ پلانٹس یا تو بند پڑے ہیں، یا غیر فعال مشینری کا ڈھیر بن چکے ہیں، اور بعض تو کبھی مکمل ہی نہیں ہوئے۔ نتیجہ یہ ہے کہ شہری نکاسی آب کے نالوں اور زہریلے مادوں سے ملا ہوا پانی پینے پر مجبور ہیں۔
سرکاری و نجی شعبے میں اربوں روپے کے منصوبے شروع کیے جاتے ہیں مگر نتیجہ صفر۔ اس کی بڑی وجہ سرکاری اداروں کی عدم دلچسپی ہے۔ پنجاب، سندھ اور خیبرپختونخوا میں پچھلے دس برسوں کے دوران واٹر ٹریٹمنٹ پر اربوں روپے خرچ کیے گئے مگر ان منصوبوں کا حال مایوس کن ہے۔ لاہور میں واسا (WASA) کے زیرِ انتظام کئی ٹریٹمنٹ پلانٹس مشینوں کے پرزے خراب ہونے کے باعث بند ہیں۔ کراچی میں کئی یونٹس مکمل ہونے کے باوجود کام نہیں کر رہے جبکہ جنوبی پنجاب اور اندرونِ سندھ میں واٹر سپلائی اسکیمیں ناقص میٹریل کے باعث چند ماہ میں ناکارہ ہو جاتی ہیں۔
یہی وہ مقام ہے جہاں بدعنوانی، ناقص منصوبہ بندی اور غیر تربیت یافتہ عملہ واٹر ٹریٹمنٹ سسٹم کو مکمل طور پر ناکام بنا دیتا ہے۔ واٹر ٹریٹمنٹ کا نظام واسا، ٹی ایم ایز، لوکل گورنمنٹ اور انوائرمنٹ ڈیپارٹمنٹ کی مشترکہ ذمہ داری ہے مگر ان اداروں میں نہ کوآرڈینیشن ہے، نہ پلاننگ اور نہ ہی احتساب۔ واسا کے پاس جدید لیبارٹریز نہیں، انوائرمنٹ ڈیپارٹمنٹ صرف نوٹس جاری کرنے تک محدود ہے، لوکل گورنمنٹ کے پاس فنڈز نہ ہونے کا بہانہ ہمیشہ تیار رہتا ہے، اور سیاست دان ان منصوبوں کو صرف فیتہ کاٹنے کی حد تک یاد رکھتے ہیں۔
یوں صاف پانی کے منصوبے کاغذی فائلوں اور افتتاحی تختیوں کی نذر ہو جاتے ہیں اور نتیجے میں عوام زہریلا پانی پینے پر مجبور ہیں۔ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس کی ناکامی نے عوام کی زندگیوں کو براہِ راست متاثر کیا ہے، جبکہ آبی حیات بھی شدید طور پر متاثر ہو رہی ہے۔ شہروں میں نلکوں سے بدبو دار، نمکین اور زنگ آلود پانی آ رہا ہے۔ دیہاتوں میں نکاسی آب کے جوہڑ ہی پینے کے پانی کا ذریعہ بن چکے ہیں۔
ہسپتالوں میں گردے، جگر اور آنتوں کی بیماریوں کے مریضوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ آلودہ پانی سے بچوں کی اموات اور حاملہ خواتین میں پیچیدگیوں کی شرح بڑھ چکی ہے۔ یہ سب کچھ ایک ایسی ریاست میں ہو رہا ہے جو خود کو اسلامی فلاحی ریاست کہتی ہے۔ ہر حکومت اپنے منشور میں صاف پانی کی فراہمی کو ترجیحی بنیادوں پر شامل کرتی ہے، مگر زمینی حقیقت اس کے برعکس ہے۔
“صاف پانی اسکیم” کے نام پر کروڑوں روپے خرچ کیے گئے، مگر اکثر فلٹریشن پلانٹس بند پڑے ہیں۔ اوور بلنگ، ناقص انتظام اور کرپشن نے نظام تباہ کر دیا ہے۔ کئی علاقوں میں شہریوں نے اپنے خرچے پر فلٹریشن یونٹس لگائے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت (WHO) کے مطابق پینے کے پانی میں ٹوٹل ڈیزالو سالڈز (TDS) 500 ppm سے کم ہونے چاہئیں، مگر پاکستان کے بیشتر شہروں میں یہ 1500 سے 2500 ppm تک پہنچ چکا ہے۔ یہ اعداد و شمار اس بات کا ثبوت ہیں کہ حکومتی واٹر ٹریٹمنٹ سسٹم مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے۔
صاف پانی بنیادی انسانی حق ہے، مگر پاکستان میں یہ حق ایک عیاشی بنتا جا رہا ہے۔ حکومتی ادارے اپنی نااہلی، بدعنوانی اور بے حسی کے باعث عوام کو زہر پینے پر مجبور کر چکے ہیں۔ اگر اب بھی اصلاحِ احوال نہ کی گئی تو آنے والے وقت میں صرف قحط نہیں، بلکہ آلودہ پانی سے ہونے والی اموات سب سے بڑا قومی المیہ بن جائیں گی۔
سوال یہ ہے کہ آخر اس تباہی کا ذمہ دار کون ہے؟