اسلام آباد ہائیکورٹ میں وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کے بیان پر سابق وزیراعظم عمران خان کو سیکیورٹی فراہمی کی درخواست پر سماعت ہوئی،
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ کیا عمران خان کو بطور سابق وزیراعظم سکیورٹی نہیں مل رہی؟ عمران خان کے وکیل فیصل فرید ایڈووکیٹ نے عدالت میں کہا کہ عمران خان کی سکیورٹی واپس لے لی گئی تھی، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کسی کو خطرات لاحق ہونے پر سکیورٹی کے کیا ایس او پیز ہیں؟ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے بہت سی سکیورٹیز واپس لی تھیں، سابق چیف جسٹس نے یہ بھی کہا تھا کہ کسی کو خطرہ ہو تو سکیورٹی دی جا سکتی ہے، کیا وہ ایس او پیز اب بھی ان فیلڈ ہیں یا نہیں یہ بھی دیکھ لیں
فیصل فرید ایڈووکیٹ نے عدالت میں کہا کہ پولیس جس کے ماتحت ہے وہی دھمکیاں دے رہا ہے عدالت نے وزارت داخلہ اور وفاق کو 6 اپریل کو جواب جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے سماعت ملتوی کردی
واضح رہے کہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کے بیان سے متعلق درخواست اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر کی تھی، درخواست میں وفاق، آئی جی اسلام آباد اور ایس ایس پی آپریشن کو فریق بنایا گیا عمران خان نے موقف اختیار کیا کہ رانا ثنا اللہ نے ایک انٹرویو میں ڈائریکٹ دھمکیاں دی ہیں، فریقین کو میری گرفتاری کر کے اپنے منصوبے پر عمل درآمد سے روکا جائے وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے کھلی وارننگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ جب ہم سمجھیں گے کہ ہمارے وجود کی نفی ہورہی ہے تو ہم تو ہر اس حد تک جائیں گے
واضح رہے کہ نجی ٹی وی کے ساتھ انٹرویو میں رانا ثنااللہ نے کہا کہ عمران خان نے سیاست کو وہاں لاکر کھڑا کردیا ہے کہ اب دونوں میں سے ایک کا وجود ہی باقی رہنا ہے، اس لیے جب ہم سمجھیں گے کہ ہمارے وجود کی نفی ہورہی ہے تو ہم تو ہر اس حد تک جائیں گے، جس میں یہ نہیں سوچا جاتا کہ یہ کام کریں یہ نہ کریں یہ جمہوری ہے، اور یہ غیرجمہوری ہے، یہ اصولی ہے اور یہ غیر اصولی، یہ چیزیں ختم ہوجاتی ہیں۔
فیصلے کی نہ کوئی قانونی حیثیت ہوگی نہ اخلاقی
چیف جسٹس کی سربراہی میں بینچ کا بار بار ٹوٹنا سوالیہ نشان ہے،
انصاف ہونا چاہیئے اور ہوتا نظر بھی آنا چاہیئے،
عدالتوں میں کیسسز کا پیشگی ٹھیکہ رجسٹرار کو دے دیا جائے








