حکومت کو پیغام دیں اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے ورنہ نتائج اچھے نہیں ہوں گے، چیف جسٹس

0
36
supreme

سپریم کورٹ، ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات کرانے کی درخواستوں پر سماعت ہوئی

چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سماعت کی، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر بنچ میں شامل ہیں ،اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان روسٹرم پر آ گئے ،وزرات دفاع کی درخواست پر اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے، قرآنی آیات کی تلاوت پر سماعت کا آغاز ہوا،

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ مولا ہمیں ہمت دے کہ صیح فیصلے کریں،اور ہمیں نیک لوگوں میں شامل کرے ،جب ہم چلے جائیں تو ہمیں اچھے الفاظ میں یاد کیا جائے۔ معاملہ بہت لمبا ہوتا جارہا ہے ۔حکومت نے اپنا ایگزیکٹیو کام پارلیمان کو دیا ہے یا نہیں۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ وزارت خزانہ کی رپورٹ پڑھیں، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت کو کہا گیا تھا سپلیمنٹری گرانٹ کے بعد منظوری لی جائے گی، اس کے برعکس معاملہ ہی پارلیمنٹ کو بھجوا دیا گیا، کیا الیکشن کیلئے ہی ایسا ہوتا ہے یا عام حالات میں بھی ایسا ہوتا ہے؟ اٹارنی جنرل نے عدالت میں کہا کہ قائمہ کمیٹی نے حکومت کو ہدایت جاری کی تھی، جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ قائمہ کمیٹی میں حکومت کی اکثریت ہے، حکومت کو گرانٹ جاری کرنے سے کرنے سے کیسے روکا جاسکتا ہے؟ وزیراعظم کے ہاس اسمبلی میں اکثریت ہونی چاہیے، مالی معاملات میں تو حکومت کی اکثریت لازمی ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ قومی اسمبلی کی قرار داد کی روشنی میں معاملہ پہلے منظوری کیلئے بھیجا،جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ آئین حکومت کو اختیار دیتا ہے تو اسمبلی قرارداد کیسے پاس کرسکتی ہے؟ اٹارنی جنرل نے عدالت میں کہا کہ گرانٹ کی بعد میں منظوری لینا رسکی تھا،گرانٹ منظوری کا اصل اختیار پارلیمنٹ کو ہے،اسمبلی پہلے قرارداد کے ذریعے اپنی رائے دے چکی تھی ،جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا حکومت کی بجٹ کے وقت اکثریت نہیں ہونی تھی؟ جو بات آپ کر رہے ہیں وہ مشکوک لگ رہی ہے، حکومت سنجیدہ ہوتی تو کیا سپلیمنٹری گرانٹ منظور نہیں کروا سکتی تھی ،

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ توقع ہے حکومت اپنے فیصلے رہ نظر ثانی کرے گی،حکومت فیصلہ کرے یا اسمبلی کو واپس بھجوائے جواب دے، اس معاملہ کے نتائج غیر معمولی ہو سکتے ہیں،فی الحال غیر معمولی نتائج پر نہیں جانا چاہتے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو عدالتی احکامات پہنچا دیں،عدالت اراکین پارلیمنٹ کا احترام کرتی ہے، ہمارا مثبت پیغام پہنچا دیں،اگر حکومت ایسا نہیں کرتی تو پھر اس کے نتائج اچھے نہیں ہونگے،انتخابی اخراجات ضرورت نوعیت کے ہیں غیر اہم نہیں،حکومت کا گرانٹ مسترد ہونے کا خدشہ اسمبلی کے وجود کے خلاف ہے،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کہتا ہے اکتوبر تک الیکشن نہیں ہوسکتے،الیکشن کمیشن نے ایک ساتھ الیکشن کرانے کا۔بھی کہا ہے،الیکشن کمیشن کی اس بات پر کئی سوالات جنم لیتے ہیں، الیکشن کمیشن کی آبزرویشن کی بنیاد سیکیورٹی کی عدم فراہمی ہے، الیکشن کمیشن کو کیوں لگتا ہے کہ ماضی کی نسبت اب صورتحال خراب ہے، جب بے نظیر بھٹو کی شہادت اس وقت بھی الیکشن کروائے گئے تھے،دہشتگردی ملک میں 1992 سے جاری ہے، 1987، 1991، 2002، 2008، 2013 اور 2018 میں الیکشن ہوئے، سیکیورٹی کے مسائل ان انتخابات میں بھی تھے، وزارت دفاع کا جواب تسلی بخش نہیں ہے ،کیا گارنٹی ہے کہ 8 اکتوبر کو حالات ٹھیک ہو جائیں گے؟ وزارت دفاع نے بھی اندازہ ہی لگایا ہے، حکومت اندازوں پر نہیں چل سکتی۔

اٹارنی جنرل نے عدالت میں کہا کہ آپریشنز میں متعین کردہ ٹارگٹ حاصل کرنے کی پوری کوشش ہے، کسی کو توقع نہیں تھی کہ اسمبلیاں پہلے تحلیل ہو جائیں گی،، جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ سال ایک حکومت کا خاتمہ ہوا تھا، عدالت نوٹس نہ لیتی تو قومی اسمبلی تحلیل ہوچکی تھی،صوبائی اسمبلیوں کے ہوتے ہوئے قومی اسمبلیوں کے انتخابات بھی ہو ہونے ہی تھے آئین میں اسمبلی تحلیل ہونے پر الیکشن کا وقت مقرر ہے، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ برطانیہ میں جنگ کے دوران بروقت انتخابات ہوئے تھے بم دھماکوں کے دوران بھی برطانیہ میں انتخابات ہوتے تھے، عدالت کو کہاں اختیار ہے کہ الیکشن اگلے سال کروانے کا کہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ سیکیورٹی فورسز کا کام بیرونی خطرات سے نمٹنا ہے ، سال 2001 سے سیکیورٹی ادارے بارڈرز پر مصروف ہیں،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے فنڈز اور سیکیورٹی ملنے پر انتخابات کرانے کا کہا تھا، فنڈز کے حوالے سے عدالتی حکم ایک سے دوسرے ادارے کو بھیجا جا رہا ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ جو پیغام اپ دینا چاہ رہے ہیں وہ سمجھ گیا ہوں،جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا گارنٹی ہے کہ 8 اکتوبر کو الیکشن ہوجائیں گے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ فوج نے انتخابات کے مقررہ وقت کے مطابق آپریشنز شروع کیے تھے،

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا آرٹیکل 245 کے تحت فوج سول حکومت کی مدد کو اتی ہے؟ کیا 2018 کے انتخابات میں بنیادی حقوق معطل تھے؟ وفاقی حکومت آرٹیکل 245 کا اختیار کیوں استعمال نہیں کر رہی؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 245 کے تحت بنیادی حقوق معطل ہوتے ہیں، جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا آئین بالادست نہیں ہے افواج نے ملک کے لیئے جانوں کی قربانیاں دی ہیں،افواج پاکستان کا تو سب کو شکر گزار ہونا چاہیئے .

،دوران سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پہلے 4/3 کا معاملہ تھا پھر فل کورٹ کا ،بائیکاٹ ہوا لیکن کسی نے سکیورٹی کا مسئلہ نہیں اٹھایا،اٹارنی جنرل نے کہا کہ میری درخواست پر ڈی جی ملٹری آپریشنز نے بریفنگ دی، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ڈی جی آئی ایس آئی اور سیکرٹری دفاع بھی موجود تھے، سماعت 27 مارچ کو شروع ہوئی ، روزانہ کی بنیاد پر 4 اپریل تک سماعتیں ہوئیں، میں نے خفیہ ایجنسیز کے سربراہان سے کہا کہ آپ اب بریفنگ دینے آئے ہیں، سماعت کے دوران کیوں نہیں آئے؟ جو تین اہم لوگ مجھ سے ملنے آئے وہ اوپن ملاقات کرتے تو اچھا ہوتا،الیکشن کمیشن والے ہمیں پہلے کہہ کر گئے کہ پیسے دے دیں، ہم انتخابات کرا لیں گے، اب ان کا جواب دیکھیں،وہ کیا کہہ کر گئے ہیں،الیکشن کمیشن پورا مقدمہ دوبارہ کھولنا چاہتا ہے،اب کہتے ہیں ملک میں انارکی پھیل جائے گی، الیکشن کمیشن اب کیسے کہہ سکتا ہے الیکشن کروانا ممکن نہیں؟ ملاقات میں افسران کو بتایا تھا دوران سماعت یہ معاملہ نہیں اٹھایا گیا،سب کو بتایا کہ فیصلہ ہو چکا ہے اب پیچھے نہیں ہٹ سکتے ،وزارت دفاع کی رپورٹ میں عجیب سے استدعا ہے، کیا وزارت دفاع ایک ساتھ الیکشن کروانے کی استدعا کرسکتی ہے؟ وزارت دفاع کی ملک میں ایک ساتھ انتخابات کی استدعا ناقابل سماعت ہے، ٹی وی چینلز پر ایک ذمے دار وزیر نے کہا اکتوبر کی تاریخ عارضی ہے، یہ میں نے خود سنا،

اٹارنی جنرل نے عدالت میں کہا کہ گزشتہ 36 گھنٹوں سے سیاستدانوں سے ملاقاتیں کر رہا ہوں، اس صورتحال کو ختم کرنے کے لئے وقت دیا جائے،کل بلاول اور آج میں وزیراعظم سے ملا ہوں، کوشش ہے ملک میں سیاسی ڈائیلاگ شروع ہو، ایک کے علاوہ تمام حکومتی جماعتیں پی ٹی آئی سے مذاکرات پر آمادہ ہیں، بلاول آج مولانا فضل الرحمان سے مل کر مذاکرات پر قائل کریں گے،معاملات سلجھ گئے تو شاید اتنی سیکیورٹی کی ضرورت نہ پڑے،تمام سیاسی جماعتیں مذاکرات پر آمادہ ہورہی ہیں، امیر جماعت اسلامی بھی شہباز شریف اور عمران خان سے ملے،دونوں فریقین نے مذاکرات کے لیے کمیٹیاں تشکیل دے دی ہیں،عدالت کچھ مہلت دے تو معاملہ سلجھ سکتا ہے ، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل کی بات میں وزن ہے، منجمد سیاسی نظام چلنا شروع ہو رہا ہے ،14 مئی قریب آ چکا ہے،سیاسی جماعتیں ایک موقف پر آ جائیں تو عدالت گنجائش نکال سکتی ہے، لیکن سوال 14 مئی کے انتخابات کا ہے،سیاسی جماعتیں کچھ کرنا چاہتی ہیں تو ہم ان کیساتھ ہیں، یہ بھی دیکھنا ہے 5 دن عیدکی چھٹیاں ہیں، 14 مئی کو انتخابات کا فیصلہ دے چکے ہیں اس معاملے کو زیادہ طویل نہیں کیا جا سکتا، 5 دن عید کی چھٹیاں آ گئی ہیں ، میرے ساتھی ججز کہتے ہیں 5 دن کا وقت بہت ہے، شاہ خاور ایڈوکیٹ نے کہا کہ عدالتی فیصلہ کبھی ایک وجہ سے نافذ نہیں ہو سکا کبھی دوسری وجہ سے عدالتی فیصلہ پر عملدرآمد ضروری ہے، لوگ کنفیوزاور ٹینشن میں ہیں، عوام کو ہیجانی کیفیت سے نکالنے کے لیے درخواست دائر کی ہے،ملک بھر میں انتخابات ایک ساتھ ہونے چاہییں، انتخابات الگ الگ ہوئے تو کئی پیچیدگیاں پیدا ہوں گی، صوبوں میں منتخب حکومتیں الیکشن پر اثرانداز ہوں گی،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جب بحث ہورہی تھی تو اٹارنی جنرل نے یہ نکتہ کیوں نہیں اٹھایا؟ اٹارنی جنرل کو نہ جانے کس نے 4/3 پر ذور دینے کا کہا، اٹارنی جنرل سے پوچھیں گے کس نے ان کو یہ مؤقف اپنانے سے روکا، وکیل شاہ خاور نے کہا کہ سیاسی جماعتیں ابھی بھی متفق ہوجائیں تو آئیڈیل حالات ہوں گے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ مذاکرات کی بات ہے تو 8 اکتوبر پر ضد نہیں کی جا سکتی، یکطرفہ کچھ نہیں ہوسکتا، سیاسی جماعتوں کو دل بڑا کرنا ہوگا،

سپریم کورٹ نے سیاسی جماعتوں کو کل کیلئے نوٹسز جاری کردیے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ نوے دن کا وقت 14 اپریل کو گزر چکا ہے۔ آئین کے مطابق نوے دن میں انتحابات کرانے لازم ہیں۔آپ کے مطابق یہ سیاسی انصاف کا معاملہ ہے۔ جس میں فیصلے عوام کرے گی۔ آپکی تجویز ہے کہ سیاسی جماعتیں مذاکرات کریں۔عدالت نے یقین دہانی کرانے کا کہا تو حکومت نے جواب نہیں دیا۔ حکومت نے آج پہلی بار مثبت بات کی۔ عدالت ایک دن انتحابات کرانے کی درخواستوں پر سیاسی جماعتوں کو نوٹس جاری کردیتی ہے، سیاسی جماعتوں کو کل کے لیے نوٹس جاری کررہے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت سیاسی جماعتوں کو مہلت دے ، عدالت نے فیصل چوہدری کو روسٹرم پر بلا لیا ،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ کیا پی ٹی آئی مذاکرات پر آمادہ ہے، فیصل چوہدری نے عدالت میں کہا کہ سراج الحق زمان پارک آئے اگلے دن ہمارا سندھ کا صدر گرفتار ہو گیا،قوم آپ کی طرف دیکھ رہی ہے آپ سے بہت امید ہے ،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ تاریخ پر جماعتیں مطمئن ہوئیں تو لیول پلیئنگ فیلڈ ملے گا،قوم کی تکلیف اور اضطراب کا عالم دیکھیں ، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پارٹی قیادت سے ہدایات لیکر عدالت کو آگاہ کریں،ممکن ہے عدالت تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہان کو طلب کرے،ایڈووکیٹ فیصل چوہدری نے کہا کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق پی ٹی آئی نے تین رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے، وزیر داخلہ ہر گھنٹے بعد عدالت کو دھمکیاں دیتا ہے، وزیر داخلہ کہتا ہے جو مرضی کر لے 14 مئی کو الیکشن نہیں ہوں گے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سیاسی اتفاق رائے ہوا تو 14 مئی کا فیصلہ نافذ کرائیں گے،کیا آپ سڑکوں پر تصادم چاہتے ہیں؟ سیاسی عمل اگے نہ بڑھا تو الیکشن میں تصادم ہوسکتا ہے،جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ دونوں فریقین کو سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کیلئے اقدامات کرنے ہوں گے، کیا سیاسی جماعتوں کے سربراہان کو ابھی طلب کرنا درست ہو گا،اٹارنی جنرل نے کہا کہ تمام سیاسی قائدین اسلام آباد میں نہیں ہیں، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کچھ سربراہان نے غیر سنجیدہ گفتگو کی تھی ، آپ نے آج سنجیدہ موقف اپنایا،سیاسی جماعتوں کے نامزد رہنماؤں کو طلب کریں گے،مذاکرات کا عمل جلد مکمل نہ ہوا تو عدالتی حکم پر عمل کروائیں گے،سیاسی جماعتیں اپنے نمائندے مقرر کر کے کارروائی کا حصہ بنے،

سپریم کورٹ میں انتخابات کے حوالہ سے کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی،تمام سیاسی جماعتوں کو نوٹسز جاری کر دیئے گئے، عدالت نے حکم دیا کہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے سینٸر لیڈر شپ پیش ہو،

قبل ازیں سپریم کورٹ نے وزارت دفاع کی ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات کرانے کی درخواست سماعت کے لیے مقرر کر دی،،وزارت دفاع نے ملک میں ایک ساتھ انتخابات کرانے کی درخواست کی تھی .وزارت دفاع نےعدالت سے 4 اپریل کے پنجاب الیکشن کیس کے فیصلے کو واپس لینے کی استدعا کر رکھی ہے۔ قومی اسمبلی، سندھ اور بلوچستان اسمبلیوں کی مدت پوری ہونے پر ملک میں ایک ساتھ الیکشن کرانے کی بھی استدعا کی گئی ہے۔

بشری نے بچوں سے نہ ملنےدیا، کیا شرط رکھی؟ خان کیسے انگلیوں پر ناچا؟

ہوشیار،بشری بی بی،عمران خان ،شرمناک خبرآ گئی ،مونس مال لے کر فرار

بشریٰ بی بی، بزدار، حریم شاہ گینگ بے نقاب،مبشر لقمان کو کیسے پھنسایا؟ تہلکہ خیز انکشاف

تحریک انصاف میں پھوٹ پڑ گئی، فرح گوگی کی کرپشن کی فیکٹریاں بحال

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کیس کی سماعت اگلے ہفتے تک ملتوی

دوسری جانب پنجاب اور خیبرپختونخوا کی نگران حکومتوں کے معاملے پر تحریک انصاف نے سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے پٹیشن پنجاب اور خیبر پختونخواہ کے سابق وزراء اعلیٰ پرویز الٰہی، محمود خان اور فوادچودھری دائر کریں گے ، تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے مشاورت کے بعد پٹیشن دائر کرنے کی منظوری دی،نگران حکومت کی مدت مکمل ہونے پر ایڈمنسٹریٹر مقرر کرنے کی استدعا کی جائے گی

قبل ازیں گزشتہ روز الیکشن کمیشن نے فنڈز کے حوالے سے پیش رفت رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرا دی، سپریم کورٹ نے آج فنڈز کے حوالے سے رپورٹ جمع کروانے کا حکم دیا تھا ، الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کو آگاہ کر دیا کہ فنڈز نہیں ملے، اسٹیٹ بینک کی طرف سے رقم ٹرانسفر نہیں کی گئی،سپریم کورٹ نے اسٹیٹ بینک کو براہ راست الیکشن کمیشن کو پنجاب کے الیکشن کے لئے فنڈز دینے کا کہا تھا تا ہم حکومت آڑے آ گئی، کابینہ اجلاس ہوا، پھر قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا ، اسمبلی اجلاس میں فنڈز نہ دینے کا متفقہ فیصلہ کیا گیا،

واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے 8 رکنی بینچ کی جانب سے گزشتہ ہفتے جاری کیے جانے والے حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ اسٹیٹ بینک پنجاب میں انتخابات کے لئے الیکشن کمیشن کو براہ راست رقم جاری کرے، وزارت خزانہ نے بتایا ہے کہ 17 اپریل تک 21 ارب روپے الیکشن کمیشن کو دیےجائیں گے۔

عدالت نے اسٹیٹ بینک اور وزارت خزانہ کو 18 اپریل تک فنڈز جاری کرنے سے متعلق رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے مزید کہا تھا کہ الیکشن کمیشن بھی 18 اپریل کو 21 ارب روپے فنڈز وصولی کی رپورٹ عدالت میں جمع کرائے۔

دوسری جانب خیبرپختونخوا انتخابات کیس میں الیکشن کمیشن نے جواب جمع کرانے کیلئے وقت مانگ لیا پشاور ہائیکورٹ میں پی ٹی آئی کی جانب سے خیبرپختونخوا میں انتخابات کیلئے کیس کی سماعت ہوئی،جسٹس ابراہیم خان اور جسٹس عبدالشکور نے سماعت کی،سپیکر خیبرپختونخوااسمبلی مشتاق غنی ہائیکورٹ میں پیش ہوئے،بیرسٹر گوہر خان نے کہا کہ 18 اپریل کو نگران حکومت کی مدت ختم ہو گئی ہے،مدت ختم ہونے کے باوجود تاحال الیکشن کی تاریخ نہیں دی گئی ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ الیکشن تاریخ گورنر اور الیکشن کمیشن نے دینی ہے،الیکشن کمیشن نے جواب جمع کرانے کیلئے وقت مانگ لیا جسٹس ابراہیم خان نے کہاکہ آئندہ سماعت پر اس کیس کو سنیں گے،4 مئی کو کیس سن کر فیصلہ کریں گے ،عدالت نے سماعت 4 مئی تک ملتوی کردی

Leave a reply