وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور وفاقی وزیر قومی غذائی تحفظ و تحقیقات اور صنعت و پیداوار رانا تنویر نے نیو سندھ سیکریٹریٹ میں ملاقات کی اور پاکستان اسٹیل ملز کی اضافی زمین پر انڈسٹریل پارک کے قیام، اسٹیل ملز کی بحالی اور مجوزہ نیشنل فوڈ سیفٹی، اینیمل اینڈ پلانٹ ہیلتھ ریگولیٹری اتھارٹی کے قیام سمیت کئی اہم اقدامات پر تبادلہ خیال کیا۔
ملاقات میں صوبائی وزیر صنعت جام اکرام دھاریجو، چیف سیکریٹری آصف حیدر شاہ ، وزیراعلی سندھ کے پرنسپل سیکریٹری آغا واصف اور سینیئر ممبر بورڈ آف ریوینیو بقااللہ انڑ نے شرکت کی۔ رانا تنویر کی معاونت وفاقی سیکریٹری این ایف ایس آر وسیم اجمل چوہدری، ڈی جی وقاص عالم اور سی ای او پی آئی ڈی سی رضوان بھٹی نے کی۔وزیراعلی مراد علی شاہ اور وفاقی وزیر رانا تنویر نے پاکستان اسٹیل ملز کی 3200 ایکڑ زمین پر انڈسٹریل پارک کے قیام پر تبادلہ خیال کیا۔وزیراعلی سندھ نے نشاندہی کی کہ یہ زمین پہلے ہی پاکستان اسٹیل ملز لمیٹڈ کے نام پر رجسٹرڈ ہے جس پر وفاقی وزیر نے عندیہ دیا کہ زمین کی نوعیت کو کمرشل میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ وفاقی وزارت تجارت اور پیداوار صوبائی حکومت کو خط کے ذریعے زمین کی تبدیلی کی درخواست کرے گی تاکہ حکومت سندھ ضروری کاغذی کارروائی کرے۔ملاقات میں اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی کہ 1974-75 میں اسٹیل ملز پروجیکٹ کیلیے دی گئی 1675 ایکڑ زمین اب تک پاکستان اسٹیل ملز لمیٹڈ کو منتقل نہیں کی گئی۔ وزیراعلی نے رانا تنویر کو یقین دہانی کرائی کہ یہ معاملہ حل کرلیا جائیگا۔ مراد علی شاہ نے زور دیا کہ پاکستان اسٹیل ملز پلانٹ کیلیے رکھی گئی تقریبا 700 ایکڑ زمین کو یا تو موجودہ اسٹیل ملز کی بحالی یا نئی کے قیام کیلیے استعمال کیا جائے۔جس پر وفاقی وزیر رانا تنویر نے وزیراعلی کو بتایا کہ روسی وفد اسٹیل ملز پلانٹ کا دورہ کر چکا ہے اور فروری میں نیا پلانٹ لگانے سے متعلق رپورٹ پیش کریگا۔ وزیراعلی سندھ نے خواہش کا اظہار کیا کہ اسٹیل ملز کی بحالی سے متعلق فیصلہ سازی میں صوبائی حکومت کو بھی شامل کیا جائے جس پر وفاقی وزیر نے حمایت کی یقین دہانی کرائی۔ وفاقی وزیر نے بتایا کہ نیشنل فوڈ سیفٹی ، اینیمل اینڈ پلانٹ ہیلتھ ریگولیٹری اتھارٹی قائم کی جا رہی ہے جس کا بنیادی مقصد مویشیوں، پودوں، زرعی مصنوعات ، خوراک اور چارے کی درآمد اور برآمد کیلیے انسپیکشن اور کورنٹائن کنٹرول کا نفاذ ہے۔اس میں سینیٹری اور فائٹو سینیٹری ( ایس پی ایس) اقدامات کی تعمیل کیلیے سامان کی تصدیق شامل ہے۔ زرعی مصنوعات اور خوراک کی پیداوار اور برآمد کے لیے مارکیٹنگ کے حوالے سے صوبائی حکومتوں کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنا بھی مقصود ہے۔ وزیر اعلی سندھ نے کہا کہ اگر وفاقی حکومت ضروری سمجھتی ہے تو ڈرافٹ ایکٹ کے نفاذ سے پہلے صوبائی محکموں زراعت، لائیو اسٹاک، ماہی گیری اور صوبائی فوڈ اتھارٹی سمیت تمام محکموں کے ساتھ جامع مشاورت کی جائے۔وفاقی وزیر نے یقین دہانی کرائی کہ مجوزہ اتھارٹی میں صوبائی حکومتوں سے مکمل مشاورت کی جائیگی۔ ملاقات کا اختتام اس عزم کے ساتھ ہوا کہ انڈسٹریل پارک کے قیام اور اسٹیل ملزم کی جلد بحالی یقینی بنانے کیلیے رابطوں کو مضبوط کیا جائیگا۔ نیز نیشنل فوڈ سیفٹی، اینیمل اینڈ پلانٹ ہیلتھ ریگولیٹری اتھارٹی کے قیام سے متعلق وفاقی وزارت صوبائی محکموں زراعت اور لائیو اسٹاک سے رائے لے گی۔
کراچی پولیس کی ہفتہ وار کارکردگی رپورٹ جاری
شرمیلا فاروقی کا حنا بیات کو سخت جواب،خواتین کے لباس پر تنقید بند کریں