اسلام،جدید سائنس،کرونا وائرس اور ہم—-ازقلم:حافظ عبدالستار
آج نہ صرف پاکستان میں بلکہ پوری دنیا میں ہر شخص کی زبان پر ایک ہی ترانہ ہے ”کرونا وائرس“ جو کہ ایک خطرناک مرض بن چکا ہے۔ پوری دنیا میں لاکھوں افراد اس وائرس کا شکار ہو چکے ہیں۔
ہر طرف خوف و ہراس کی فضاء پھیل چکی ہے۔ کیونکہ یہ وائرس ملنے جلنے سے پھیلتا ہے اس لیے تما م سکولز،کالجز،یونیورسٹیز،کمیونٹی سنٹرز،مدارس،دفاتر،ملز،فیکٹریز کو بند کر دیا گیا ہے،تاکہ اس وائرس کے پھیلنے کے امکانات کم ہو جائیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت پوری دنیا میں کرونا وائرس کے تقریباً786957کیسز سامنے آچکے ہیں جس میں مزید کیسز ابھی بھی سامنے آرہے ہیں،جن میں سے مرنے والوں کی تعداد 37843تک پہنچ چکی ہے۔
مزید برآں روزانہ کے حساب سے پوری دنیا میں 3500سے زیادہ لوگ مر رہے ہیں،اور پاکستان میں ان کی تعداد تقریباً 1865ہو چکی ہے۔اگر ہم حالات کا جائزہ لیں تو کرونا وائرس دیکھنے میں ایک بیماری ہے لیکن اگر میں اس کو خدا کا عذاب کہوں تو غلط نہ ہوگا۔جو حالات اس وقت پوری دنیا کے ہیں،ہر طرف بے حیائی،فحاشی عروج پہ ہے۔ امت مسلمہ پر ظلم کیا جا رہا ہے (شام،فلسطین،کشمیر) اس میں شامل ہیں۔حلال اور حرام کے درمیان تمیز ختم ہو چکی ہے،ظلم اپنی انتہاء کو پہنچ چکا ہے۔ لیکن کوئی طاقت اس کو روک نہ سکی،وہ کہتے ہیں نہ کہ خدا کی لاٹھی بے آواز ہے جب آتی ہے تو پوری دنیا کو ہلا ک کر کے ر کھ دیتی ہے۔
دیکھئے!خدا کا عذاب ایک چھوٹے سے وائرس نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیااور یہ پکار پکار کے کہہ رہاہے ”Where are your Fighter Jets, Missiles and your Nuclear Weapons” اور سب کو بتا دیا تم تو اپنے آپ کو سپر پاور سمجھتے ہو،لیکن یہ تمہاری غلط فہمی ہے جس میں تم مبتلا ہو، سب سے طاقتور ذات اللہ تعالیٰ کی ہے۔ دنیا پر ظلم اس قدر اپنی انتہاء کو پہنچ گیا کہ خدا کا عذاب آگیا۔ میرا وجدان کہتا ہے یہ صدا تھی کشمیر کی ان ماؤں اور بہنوں کی جنہوں نے اپنے بھائیوں اور بیٹوں کواپنی آنکھوں کے سامنے قتل ہوتے دیکھا،یہ صدا تھی ان بہنوں اور بیٹیوں کی جن کی عزت کو سب کے سامنے تار تار کیا گیا۔اور خدا کے عذاب نے ”کرونا وائرس“ کی صورت میں پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا،
انہوں نے تو کشمیر کو بند کیا تھا اللہ تعالیٰ نے پوری دنیا کو بند کر دیا۔مجھے شام کے اس بچے کی صدابھی یاد ہے جس نے دم توڑتے ہوئے کہا تھا”سَاُخْبِرُ اللّٰہَ بِکُلِّ شَیْ“ میں سب کچھ اپنے رب کو بتاؤں گا۔مجھے عراق کی اس بیٹی کی صدا بھی یاد ہے جس نے بھاگتے ہوئے نیوز چینل کے صحافی سے کہا ”انکل! خدا کے واسطے میری عکاسی مت کرنا میں بے حجاب ہوں“۔ مجھے افغانستان کے اس بچے کی بات بھی یاد ہے جس کا بازو زخمی ہو گیا تھا اور ڈاکٹر نے کہا بیٹا!تمہارا بازو کاٹنا پڑے گا تو اس بچے نے کہا ”خدا کے واسطے میرا بازو کاٹ لیں مگر میری آستین مت کاٹنا کیونکہ زیب تن کرنے کیلئے میرے پاس یہی ایک جوڑا ہے“۔اس مرض سے بچنے کیلئے آج کی سائنس یہ کہتی ہے،کہ صفائی کا خاص خیال رکھو،
جس علاقے میں یہ بیماری ہے اس سے دور رہو، ایک دوسرے کے درمیان فاصلہ رکھو، منہ پر Maskپہنو، ہاتھوں کو صاف کرو، یہ وہ تمام چیزیں ہیں جن کوچودہ سوسال پہلے ہمارے آقا و مولا جناب حضرت محمد مصطفی ﷺ بیان کر چکے تھے۔صحیح بخاری کی حدیث مبارکہ ہے جس کا مفہوم کچھ ہوں ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ شام کی طرف سفر کر رہے تھے کہ آپ کو ایک مقام پر اطلاع ملی کہ شام کی طاعون کی وباء پھیل چکی ہے تو اس وقت قافلے میں حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ بھی شامل تھے آپ کی عرض کی یا امیر المؤمنین!میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا۔”کہ جب تم کسی علاقہ کے متعلق سنو کہ وہاں وباء پھیل چکی ہے تو اس علاقہ کی طرف مت جاؤ اور اگر تم اس علاقہ میں ہو جہاں وباء پھیلی ہوئی ہے تو وہاں سے اپنی جان بچانے کیلئے مت بھاگو“۔
اسلام نے بھی تو یہی تعلیمات دی تھیں۔ حرام سے دور رہو،پردہ کرو،صفائی کا خاص خیال رکھوبیشک صفائی نصف ایمان ہے۔ کیونکہ اسلام وہ نظریہ حیات ہے جس میں زندگی کے ہر پہلو پر راہنمائی اور سبق ملتا ہے۔انسانی زندگی کے ہر طبقے کیلئے براہ راست راہنمائی موجود ہے۔ مگر افسوس!ہم نے اسلام کی تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا،اور بات پھر بھی وہاں ہی آگئی ہے ساری دنیا میں لوگ ماسک کی صورت میں پردہ کر رہے ہیں، حرام چیزوں سے دور رہے ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق بہت سے لوگ اسلام قبول کررہے ہیں کیونکہ آج پوری دنیا کو علم ہو چکا ہے کہ اسلام ہی امن و سلامتی کا راستہ ہے۔ مشہور رومن حکم راں (Justinan)کہتا ہے جو معمولات،دستور،باضابطہ طور پر اسلا م کے پاس موجود ہیں۔
وہ دنیا کی کسی قوم کے پاس نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ امتداد زمانہ کے ساتھ ساتھ مستقبل میں پیش آنے والے مسائل وہ چاہے کسی بھی نوعیت کے ہوں،اسلام نے باضابطہ ان کا احاطہ کیا ہے۔اسلام کے علاوہ دوسرے مذاہب وادیان جدید دور کے مسائل حل کرنے سے عاجز ہیں۔جس چیز کا حل ہمیں سائنس اور کتابوں سے نہیں ملتا ان تمام مسائل کا حل حضور ﷺ کی سنت نبوی کے اندر موجود ہے کیونکہ ارشاہ نبویﷺ ہے۔”ترکتم علی حجۃ بیضاء لیلھا کنھار رھا لایزیغ عنھا الا ھالک“ ترجمہ:میں نے تم کو روشن راستے پر چھوڑا ہے،اس کی راتیں بھی اس کے دنوں کی مانند روشن ہیں۔
اب اسلام کی تعلیمات سے وہی شخص انحراف کرے گا جو خود کو ہلاکت کے گڑھے میں گرانا چاہتا ہے۔اگر ہم اس بیماری کو اسلامی نقطہ نظر سے دیکھیں تو اس کا علاج بہت ہی آسان ہے اور وہ ہے ”وضو“آج کی جدیدسائنس بھی کہتی ہے اگر کوئی دن میں بانچ بار وضو کرتا ہے تو وہ کئی بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے۔وضو کے طریقے کو دیکھا جائے اور سائنسی بنیادوں پر اس کو پرکھا جائے تو حیرت انگیز انکشافات ہوتے ہیں۔مثلاً سب سے پہلے منہ کو لے لیں۔وضو میں تین دفعہ کلی کرنے سے منہ کی غلاظت سے پاک ہو جاتا ہے۔
جدید سائنس ثابت کر چکی ہے کہ کلی کرنے سے گلا خراب ہونے سے محفوظ رہتا ہے اور دانت اور مسوڑھے بھی خراب ہونے سے محفوظ رہتے ہیں کیونکہ کلی کرنے ان پر خوراک کے ذرات جو انفیکشن کا باعث بنتے ہیں دور ہو جاتے ہیں۔اس کے بعد ناک میں پانی ڈالنا اس میں موجود مٹی اور دھول کے ذرات جو ناک میں موجود چھوٹے چھوٹے بال پکڑ لیتے ہیں اور انہیں سانس کی نالی میں جانے سے روکتے ہیں وضو کرنے سے یہ گندگی دور ہو جاتی ہے اور ناک صاف رکھنے سے تازہ ہوا کی آمد و رفت بہتر ہو جاتی ہے۔
اسکے بعد چہرہ اور دونوں ہاتھ دھونے سے ان پر پسینے او رتیل کے غدود اور ہوا میں موجود مٹی اور جراثیم سے جو کیمیائی عمل ہوتا ہے اس سے یہ اعضاء محفوظ رہتے ہیں اور انفیکشن سے بچ جاتے ہیں۔اور ”کرونا وائرس“سے محفوظ رہنے کیلئے بھی تو ڈاکٹر یہی کہہ رہے ہیں بار بار ہاتھوں کو دھوئیں،منہ کو دھوئیں یہ تمام چیزیں بھی تو اسلام کی بیان کردہ ہیں ہم ان پر عمل کر کے اس سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ مختار سالم اپنی کتاب
(Prayer esport for body and soul)میں ہر پہلو سے وضو کے فوائد کے بارے میں لکھتا ہے۔
”جدید سائیٹیفک ریسرچ ثابت کرتی ہے کہ وضو ایک انتہائی اہم عمل ہے اور دن میں پانچ وقت وضو کرنے سے جسم انتہائی اہم اور مضر رساں بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے“۔آج وقت اسلام کی تعلیمات پر عمل کرنے کا ہے۔اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی جبیں کو جھ کا کر استغفار کرنے کا ہے۔آج وقت اپنے اعمال کے محاسبہ کرنے کاہے۔اپنے گھروں اور مساجد کو رب کی عبادت سے آباد کرنے کا ہے۔اور ”کروناوائرس“کے خلاف جو ہماری حکومت اقدامات کر رہی ہے ان پر عمل کرنے کا ہے کیونکہ اس بیماری کا خاتمہ صرف حکومت نہیں کر سکتی ان کو ہماری تعاون کی بھی اشد ضرورت ہے۔
اپنے گھروں سے ضرورت کے بغیر بالکل باہر نہ نکلیں،اپنے پیاروں کی حفاظت کریں۔ اگر کی ضرورت کے پیش نظرباہر نکلنا پڑتا ہے تو ماسک کا استعمال ضرور کریں اور حکومت نے جو پورے ملک میں باہر نکلنے پر پابندی لگائی ہے اس کو اپنے لئے عذاب نہ سمجھیں بلکہ میں تو یوں کہوں گا۔”It’s not a CURFEW, It’s a CARE FOR YOU”آخر میں اتنا کہوں گا۔”سب کچھ ہر جگہ بند ہو رہا ہے،لیکن!توبہ کا دروازہ اب بھی کھلا ہے“
اسلام،جدید سائنس،کرونا وائرس اور ہم
ازقلم:حافظ عبدالستار