ہم بتاتے ہیں کہ رانا شمیم کیا چیز ہےاوراس کے کارہائے نمایاں کیا ہیں:گلگت بلتستان ہائی کورٹ بارکےانکشافات
اسلام آباد :ہم بتاتے ہیں کہ رانا شمیم کیا ہےاوراس کے کارہائے نمایاں کیاہیں:گلگت بلتستان ہائی کورٹ بارکے انکشافات ،اطلاعات کے مطابق گلگت بلتستان ہائیکورٹ بار کے اجلاس میں کہا گیا کہ موصوف جج صاحب دوران ملازمت بحیثیت چیف جج سپریم اپیلٹ کورٹ کے وکلاء، بار اور بنچ کے درمیان تناؤ، خلا اور غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوششیں کرتا رہا، عدالتی نظام کافی عرصہ تک ڈی ریل رہا اور موصوف وہ واحد شخصیت ہے جس کی ابتدائی تقرری کیخلاف جی بی کی وکلا برادری اور عوام الناس نے اجتماعی طور پر ہڑتال کی تھی۔
تفصیلات کے مطابق آج گلگت بلتستان ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کا ایک اہم اجلاس زیر صدارت زکریا احمد ایڈووکیٹ صدر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن گلگت میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں سابق چیف جج سپریم اپیلیٹ کورٹ گلگت بلتستان رانا شمیم کے برطانیہ سے جاری ہونے والے بیان حلفی کو ریاست پاکستان اور گلگت بلتستان کی جوڈیشری کی ساکھ کو داغدار کرنے اور تمام معزز عدالتوں سے عوام الناس کے اعتماد اور بھروسے کو متاثر کرنے کی مذموم کوشش قرار دی گئی اور سخت الفاظ میں مذمت کی گئی۔
گلگت بلتستان ہائیکورٹ بارکے اس اہم اجلاس میں مزید کہا گیا کہ موصوف جج صاحب دوران ملازمت بحیثیت چیف جج سپریم اپیلٹ کورٹ کے وکلاء، بار اور بنچ کے درمیان تناؤ، خلا اور غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوششیں کرتا رہا اور عدالتی نظام کافی عرصہ تک ڈی ریل رہا اور موصوف وہ واحد شخصیت ہے جس کی ابتدائی تقرری کیخلاف جی بی کی وکلا برادری اور عوام الناس نے اجتماعی طور پر ہڑتال کی تھی۔
اجلاس میں کہا گیا کہ ایک سال تک وکلاء نے سپریم اپیلیٹ کورٹ کا بائیکاٹ جاری رکھا اور سپریم اپیلیٹ کورٹ میں پیش نہیں ہوئے۔ گلگت بلتستان کے وکلاء نے عدالتی تاریخ میں پہلی بار سپریم اپیلیٹ کورٹ کے احاطے میں موصوف جج صاحب کیخلاف دهرنا دیکر احتجاج ریکارڈ کروایا تھا جس پر موصوف نے جی بی کے معزز اور سینئر وکلاء کے خلاف مقامی تھانوں میں مختلف مقدمات کا بھی اندراج کروایا تھا۔ بعد ازاں جی بی کے سینئر وکلاء کے لائسنس بھی یکطرفہ طور پر معطل کیے،
گلگت بلتستان ہائیکورٹ بار کے اجلاس میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ موصوف جج صاحب کے صادر کیے ہوئے فیصلوں میں سے ایک بھی فیصلہ کو جوڈیشری اور عوام الناس میں پذیرائی حاصل نہ ہو سکی اور ان کے فیصلوں کے بعد لوگوں نے مجبوراً جرگے کر کے آپس کے اہم معاملات کو حل کیا، جس کی مشہور نظیر ‘‘ سرکار بنام بابا جان ‘‘ کا فیصلہ ہے۔ سابقہ چیف جج آف سپریم اپیلیٹ کورٹ گلگت بلتستان تین سال کے عرصے میں تمام تر سرکاری مراعات کے مزے لیتے رہے اور خلاف قانون و ضابطہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے اپنی پینشن بھی وصول کی جو کہ گلگت بلتستان آرڈر 2018ء کے منافی تھی۔
آج گلگت بلتستان ہائیکورٹ بار کے اہم اور تاریخی اجلاس میں یہ انکشافات بھی سامنے آئے کہ موصوف نے سپریم پیلٹ کورٹ میں خلاف قانون کئی ملازمین کو گریڈ 18 سے 20 میں بھرتی کروایا جس کیخلاف آج بھی معزز سپریم کورٹ آف پاکستان میں مقدمہ زیر ساعت ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ بعد از سبکدوشی سابق چیف جج نے فاضل چیف جسٹس آف پاکستان کیخلاف برطانیہ میں جا کر ایک ’’ بیان حلفی“ جمع کرا دیا جس سے نہ صرف پورے پاکستان کی معزز عدلیہ کی ساکھ مجروح ہوئی ہے بلکہ عوام الناس کا معزز عدلیہ پر اعتماد کم ہوا۔
گلگت بلتستان ہائیکورٹ بارکے تمام ممبران کا کہنا تھاکہ موصوف سابق چیف جج صاحب کا یہ بیان حلفی قانون و عدالتی اخلاقیات و روایات کے بالکل برعکس ہے اوریہ شخص عدلیہ کی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے، اس کے ساتھ ساتھ سابق چیف جج سپریم اپلیٹ کورٹ رانا شمیم صاحب نے گلگت بلتستان کی جوڈیشری کی تاریخ میں کئی ایسے متنازعہ، غیر منصفانہ اور جانبدارانہ فیصلے اور اقدامات کئے ہیں جن کا بیان کرنا خود وکلا اور جوڈیشری اور جی بی کے عوام اور تاریخ کے منہ پر کالک ملنے کے مترادف ہے۔
گلگت بلتستان ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے اجلاس میں متفقہ طور پر سابق چیف جج کے بیان حلفی اور اعلی عدلیہ کی تضحیک کے اقدام کی بھرپور مزمت کی گئی۔ اجلاس میں اعادہ کیا گیا کہ قانون و انصاف کی بالادستی اور حکمرانی پر جی بی کی وکلاء برادری کسی بھی قسم کی قربانی دینے سے دریغ نہیں کریگی۔ اجلاس میں سپریم کورٹ آف پاکستان سے مطالبہ کیا گیا کہ موصوف جج کے ان الزامات پر فوری طور پر جوڈیشل کمیشن مقرر کر کے کارروائی کی جائے۔