اپوزیشن نومبر میں کیا کرنے جارہی ہے؟ –از — عبداللہ باغی

حکومت اور اپوزیشن دونوں نے مسائل کاحل نہ ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے کے خلاف بیان بازیوں کا محاذ کھولا ہواہے کبھی کہا جارہاہے کہ نومبر اہم ہے۔ جب نواز شریف کی حکومت تھی اس وقت بھی یہی باتیں ہوتی تھیں کہ یہ مہینہ اہم ہے اور وہ مہینہ اہم ہے۔یہ بات درست ہے کہ ملکی حالات درست نہیں ہیں۔

اس وقت سیاسی محاذ پرمولانافضل الرحمان کا دھرنا اور جلسہ چھایا ہواہے اگر حکومت ڈلیور کررہی ہوتی تو لوگ اس پر قطعاً توجہ نہ دیتے۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں رابطہ موجود ہے وہ دھرنے میں شامل ہوں یا نہ ہوں لیکن جلسہ میں شامل ہوتے ضرور دیکھائی دے رہے ہیں۔ اکتوبر کے بعد اپوزیشن اپنی نئی حکمت عملی بھی بناسکتی ہے اس لئے نومبر کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ اہم ہے۔

تحریک انصاف کی حکومت سے لوگوں کوبڑی امیدیں تھیں لیکن ابھی تک کچھ ایسا نہیں ہوا۔جس سے یہ کہا جا ئے کہ حکومت۔۔ سیف۔۔پوزیشن میں ہے۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی فضل الرحمان کے ساتھ جاناچاہتی ہیں لیکن وہ نظام کو بھی غیر مستحکم نہیں کرنا چاہتیں۔اس وقت ایسا دیکھائی دے رہا ہے کہ پاکستان کے مسائل حل کرنے کا لائحہ عمل نہ حکومت کے پاس ہے اور نہ اپوزیشن کے پاس ہے دونوں اپنے اپنے اندا ز میں بیوقوفیاں کررہے ہیں۔

۔ مولانا فضل الرحمان کو احتجاج کاحق ہے لیکن اس سے کسی کی زندگی متاثر نہیں ہونی چاہیے۔ یہ کہنا کہ طاہر القادری اور عمران خان نے بھی تو دھرنا دیا تھا۔ تواس کا مطلب یہ نہیں کہ اگر انھوں نے غلط کیا تھا تو

آپ بھی غلط کریں۔ تحریک انصاف کی حکومت بھی الگ قسم کی ہے اور اپوزیشن بھی الگ قسم کی ہے حکومت کو چاہئے کہ مولانا فضل الرحمان کومنائے۔یہ عجیب سا منظر نظر آرہاہے کہ اپوزیشن کی دو بڑی جماعتیں مولانا فضل الرحمان کو روک رہی ہے دھرنے کو اکتوبر سے آگے لے جائیں جبکہ حکومت بھی مدارس کے علماسے کہہ رہی ہے کہ مولانا فضل الرحمان کے دھرنے میں شامل نہ ہوں۔یہ بات درست ہے کہ اپوزیشن کو ایک کے بعد ایک دھچکا لگاہے اور ایک سال بعد حکومت اگر گرتی ہے تو اس سے معیشت درست نہیں ہوگی۔ حکومت کومختلف اداروں کی حمایت حاصل ہے اس لئے اس وقت احتجاج کرنا اپوزیشن کے فائدے میں نظر نہیں آتا ہے۔

۔ چند دن پہلے تک تو حکومت کا خیال تھا کہ مولانا فضل الرحمن کسی نہ کسی بہانے اپنا آزادی مارچ ملتوی کر دیں گے۔حالانکہ آزاد ذرائع کی اطلاعات یہی تھیں کہ وہ اپنے پروگرام پر ڈٹے ہوئے ہیں اور کسی حلیف یا حریف کی بات اس سلسلے میں ماننے کے لئے آمادہ نہیں ہیں۔اب حکومت کے سنجیدہ حلقوں کو یہ پریشانی لاحق ہے کہ دھرنا کے اثرات آخر کیا ہوں گے۔ اب حکومت ہاتھ پاؤں مار رہی ہے۔ جبکہ پہلے سب ہر چیز کا مذاق اُڑا رہے تھے۔ اب جب سر پر پڑی ہے تو حکومت سر ڈھر کی بازی لگاتی دیکھائی دے رہی ہے۔اب حکومتی وزیر مولانا کو لیگل نوٹس بھجوارہے ہیں۔ تو کسی عدالت میں مارچ کو روکنے کی استداعا کی جا رہی ہے۔

۔ حکومت کا یہ بھی الزام ہے کہ مولانافضل الرحمان مدرسہ ریفارم نہیں چاہتے۔فضل الرحمان مذہب کوسیاست میں استعمال کررہے ہیں۔مولانافضل الرحمان نے مذہب کے نام پرچندہ اکٹھاکیا۔ جبکہ ہم

نے دھرنے میں مذہب کواستعمال نہیں کیا تھا۔مولانا فضل الرحمان الزاما ت لگا کر لوگوں کو اشتعال دلا رہے ہیں۔ وہ پہلے دن سے ہی بلیک میلنگ کی سیاست کر رہے ہیں۔مولانا فضل الرحمان الیکشن میں شکست کا بدلہ لینا چاہتے ہیں۔ انہوں نے بطور چیئرمین کشمیر کمیٹی کے کروڑوں روپے کا بجٹ استعمال کیا ہے۔ مولانا فضل الرحمان بچوں کو ڈوبتی سیاست بچانے کیلئے استعمال کر رہے ہیں مولانا جس ایجنڈے پر ہیں اس سے صر ف مودی کو فائدہ ہور ہاہے۔

۔ دوسری جانب یہ خبریں بھی زیر گردش ہیں۔کہ اپوزیشن جماعتوں کے درمیان چارٹر آف ڈیمانڈ پر مکمل اتفاق رائے ہوگیا ہے۔چارٹر آف ڈیمانڈ کے تین اہم نکات ہیں جس میں حکومت کے استعفے۔صاف شفاف منصفانہ عبوری انتخابات کے انعقاد اور الیکشن کمیشن کے علاوہ کسی اور ادارے کی انتخابی عمل میں مداخلت نہ ہونے۔اسلامی آئینی ترامیم و قوانین کا تحفظ شامل ہیں۔ رہبر کمیٹی نے تمام جماعتوں کی متفقہ چارٹر آف ڈیمانڈ کیلئے تجاویز تحریری طورپر متحدہ حزب اختلاف کے قائدین محمد شہباز شریف۔ بلاول بھٹو زرداری۔مولانا فضل الرحمن۔اسفندیارولی خان۔محمود خان اچکزئی۔آفتاب احمد شیرپاو۔علامہ اویس نورانی۔ سینیٹرپروفیسر ساجد میر کو آگاہ کردیا تھا۔کسی بھی مذاکراتی ٹیم سے چارٹرآف ڈیمانڈ سے ہٹ کربات نہیں کی جائے گی۔

۔ اس ملک کے لوگوں کے پاس پیسہ ہے اور ریاست کے پاس پیسہ نہیں ہے۔ دھرنوں کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ دنیا بھر کے سفارتخانے اپنے اپنے ملکوں کو لکھ کر بھیجتے ہیں کہ پاکستان کا دارالحکومت محفوظ نہیں ہے۔اور جب ایسا ہوتا ہے تو سرمایہ کاری رک جاتی ہے۔اسٹاک ایکسینج بیٹھ جاتی ہے۔ کاروبار اور زندگی

متاثر ہو جاتی ہے۔جس کا اس وقت پاکستان اس کمزور معیشت کے ساتھ کسی صورت متحمل نہیں ہوسکتا۔ ڈی چوک میں ہونیوالی یہ سرگرمی دارالحکومت سمیت پورے ملک کومتاثر کرتی ہے۔ اگر حکومت چاہے تو تمام سیاسی جماعتوں کو انگیج کرسکتی ہے۔مگر اس کے لیے سیاسی بصیریت کی ضرورت ہے۔جو اس وقت حکومت میں بیٹھے لوگوں میں دیکھائی نہیں دے رہی۔

۔ مولانا فضل الرحمن کا دعویٰ تو یہ ہے کہ حکومت خود ہی مستعفی ہو جائے گی۔لیکن اگر اس دعوے میں مبالغہ ہے تو بھی اتنا ضرور ہے کہ اگر ایسا نہ بھی ہوا تو بھی حکومت کے وجود میں ایک بڑا ڈینٹ پڑ جائے گا۔ عین ممکن ہے جو وزیر اس وقت بیان بازی کے مزے لے رہے ہیں کل کو اپنی سیاسی بصیرت پر افسوس کررہے ہوں۔

اپوزیشن نومبر میں کیا کرنے جارہی ہے

تحریر ِ عبداللہ باغی

Muhammad Abdullah

Comments are closed.