جب کوفہ میں ضمیر قید ہوا اور سچائی تنہا رہ گئی.مکہ سے کربلا تک کا سفر.چار محرم 61 ہجری
تحریر: سیدریاض حسین جاذب
اسلامی تاریخ کے سب سے دردناک سانحات میں سے ایک واقعۂ کربلا محض میدانِ نینوا کا واقعہ نہیں، بلکہ اس سے قبل کے سیاسی و سماجی حالات بھی گہرے تجزیے کے متقاضی ہیں۔ چار محرم الحرام 61 ہجری کو کوفہ میں پیش آنے والے چند اہم واقعات نے تاریخ کا رخ بدل دیا اور امام حسینؑ کی تنہائی کو یقینی بنانے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ یہ دن ایک دھمکی آمیز خطبے سے شروع ہوا اور ضمیر کے قیدیوں کے زخموں پر ختم۔
کوفہ کا گورنر عبید اللہ بن زیاد، جسے یزید نے امام حسینؑ کی آمد روکنے کے لیے مقرر کیا تھا، نے اسی دن مسجدِ کوفہ میں ایسا خطبہ دیا جو جبر اور خوف کی علامت بن گیا۔ اس نے امام حسینؑ کا ساتھ دینے والوں کو قتل کی دھمکیاں دیں اور قاضی شریح کا فتویٰ سنایا، جس میں امامؑ کے خون کو مباح قرار دیا گیا۔ یہ فتویٰ اس کوشش کی علامت تھا کہ ظلم کو شرعی رنگ دے کر جائز ٹھہرایا جائے۔
ابن زیاد نے کوفہ کے تمام راستے بند کرا دیے تاکہ کوئی بھی فرد یا قافلہ امام حسینؑ کی نصرت کو نہ پہنچ سکے۔ یہ اقدام محض ایک فوجی یا سیاسی چال نہیں، بلکہ سچائی سے کوفہ کو کاٹ دینے کی شعوری سازش تھی۔ ایک طرف عوام کو دھمکایا گیا، دوسری جانب مال و منصب کا لالچ دے کر خریدنے کی کوشش کی گئی۔ یوں بہت سے لوگ خوف یا مفاد کی بنیاد پر ابن زیاد کے ساتھ جا ملے۔
جن لوگوں پر امام حسینؑ سے عقیدت یا حمایت کا شبہ تھا، انہیں قید کر دیا گیا۔ یہی قیدی بعد ازاں "توابین” کہلائے—وہ لوگ جنہیں اپنے جرمِ خاموشی پر ندامت تھی۔ ان کا ضمیر انہیں چین سے بیٹھنے نہ دیتا تھا، اور آخرکار انہوں نے توبہ کے طور پر بنو امیہ کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا۔
توابین نے سلیمان بن صرد خزاعی کی قیادت میں امام حسینؑ کے خون کا بدلہ لینے اور اپنی کوتاہی کا کفارہ ادا کرنے کا عزم کیا۔ انہوں نے اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہا اور یزیدی حکومت کے خلاف جنگ کی، یہاں تک کہ وہ بھی میدانِ شہادت میں اتر گئے۔ ان کی تحریک اس بات کی علامت بنی کہ تاریخ خاموش تماشائیوں کو معاف نہیں کرتی۔
کوفہ کا قبیلوی نظام بھی امام حسینؑ کی تنہائی کا سبب بنا۔ بیشتر قبائل نے اپنے سرداروں کی اطاعت میں امام کا ساتھ دینے سے انکار کیا۔ سردار یا تو بنو امیہ سے قربت رکھتے تھے یا ابن زیاد کی طرف سے ملنے والے مفادات کے اسیر ہو چکے تھے۔ یوں ضمیر قبیلوی وفاداری کے نیچے دفن ہو گیا، اور عام قبائلی افراد بھی حق کا ساتھ نہ دے سکے۔
چار محرم الحرام 61 ہجری کا دن محض تاریخ کا ایک صفحہ نہیں، بلکہ امتِ مسلمہ کے لیے ایک آئینہ ہے۔ ابن زیاد کا خطبہ، قاضی شریح کا فتویٰ، اور کوفہ کی خاموشی.یہ سب مل کر امام حسینؑ کی تنہائی کا پس منظر بنے۔ مگر انہی اندھیروں میں سے "توابین” جیسی روشنی بھی نکلی، جو یاد دلاتی ہے کہ اگر ضمیر جاگ جائے تو توبہ بھی قربانی کا راستہ چن لیتی ہے۔
کربلا کا پیغام صرف ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے تک محدود نہیں، بلکہ یہ بھی ہے کہ خاموشی بھی جرم ہے۔ اور کبھی، تاخیر سے جاگا ہوا ضمیر بھی تاریخ میں جگہ پا لیتا ہے.اگر وہ سچائی کے لیے لڑ مرنے کا حوصلہ رکھتا ہو۔