جب زمین بھی روئی اور آسمان خاموش ہو گیا (9محرم)
تحریر:سید ریاض حسین جاذب
کربلا میں نو محرم کا سورج صرف روشنی نہیں، ایک اعلان تھا، یہ آخری دن ہے۔ یہ سورج افق پر نہیں، دلوں پر طلوع ہوا۔ اپنے ساتھ وہ سائے لے کر آیا جن کا نام فراق، پیاس اور وداع تھا۔ کربلا کی ریت تپ رہی تھی لیکن اس دن جو سورج طلوع ہوا، وہ صرف گرمی نہ لایا… وہ فیصلے کا سورج تھا، وہ آزمائش کی تپش تھا، وہ تاریخ کے عظیم ترین امتحان کا آغاز تھا۔
جب خیموں پر سائے چھوٹے ہونے لگے اور خطرہ بڑا ہوتا چلا گیا۔ جب بچوں کے لب خشک، ماؤں کی آنکھیں نم اور جوانوں کی پیشانیاں وضو کے پانی سے نہیں بلکہ آنسوؤں سے تر تھیں۔ یہ سورج عباسؑ کی بصیرت پر پڑا، جو خیموں کے گرد پہرہ دے رہے تھے۔ یہ سورج زینبؑ کے آنچل پر پڑا، جو جانتی تھیں کہ اب حجاب کی آخری ساعتیں ہیں۔ یہ سورج سکینہؑ کے چہرے پر پڑا، جس کے ہونٹوں پر پیاس سے زیادہ ایک ہی سوال تھا: "بابا! کل ہم کہاں ہوں گے؟”
نو محرم کی صبح عمر بن سعد نے لشکر کو تیار رہنے کا حکم دیا۔ خیموں کے گرد گھیرا مزید تنگ ہو گیا۔ اب لشکر کی تلواریں خیموں کی دیواروں کے سائے میں چمکنے لگیں۔ جیسے ظلم، خامشی کے پردے میں چلنے لگا ہو۔ حضرت عباسؑ گھوڑے پر سوار ہوئے، دشمن کے قریب پہنچے اور للکار کر پوچھا: "کس نیت سے آئے ہو؟” جواب آیا: "ہم جنگ کا آغاز کرنے آئے ہیں!” عباسؑ واپس امام حسینؑ کے پاس آئے اور امامؑ نے فقط ایک بات کہی: "بھیا، اُن سے کہو… ہمیں ایک رات کی مہلت دے دو!” یہ رات، عبادت کی رات تھی، رخصتی کی رات تھی، زندگی کا آخری چراغ تھی۔ ایک ایسی رات جس میں سجدوں کی نمی، رخصتی کے آنسو اور تقدیر کے فیصلے جمع تھے۔
شام ڈھلنے لگی۔ قافلۂ حسینؑ کے چراغ روشن ہوئے اور خیموں میں تلاوتِ قرآن، دعائیں، اذانیں اور نالے بلند ہونے لگے۔ ہر سانس کے ساتھ لگتا تھا جیسے موت قریب آ رہی ہو، مگر خیموں میں کوئی خوف نہیں تھا۔ امامؑ نے سب اصحاب کو جمع کیا، اور کہا "کل میرے ساتھ رہنے والوں کی گردنیں کٹیں گی۔ تم سب چلے جاؤ۔ میں تمہیں رخصت کرتا ہوں!” مگر ہر زبان سے ایک ہی جواب آیا: "اے فرزندِ رسولؐ! ہم آپ کے بعد کیسے زندہ رہ سکتے ہیں؟” یہ جملہ صرف وفاداری نہیں، عشق کی زبان تھا۔ حضرت عباسؑ خاموشی سے خیموں کے گرد چکر لگاتے رہے… ہر خیمے کا در کھٹکھٹاتے، زینبؑ کے خیمے کے سامنے رک جاتے… اور صرف دل ہی دل میں کہتے: "کل اگر میں نہ رہوں، تو یہ خیمے کیسے محفوظ رہیں گے؟” اُن کے چہرے پر کوئی خوف نہ تھا، صرف فرض، غیرت اور اہلِ حرم کا تحفظ تھا۔
رات گہری ہوئی… سکینہؑ امام حسینؑ کے سینے پر سوئی ہوئی تھی، مگر نیند بے چین تھی۔ اس معصوم بچی کے چہرے پر وہ پیاس لکھی تھی جو نہ صرف جسمانی تھی بلکہ دل کی بےچینی کا اظہار بھی۔ زینبؑ نے بھائی سے پوچھا: "کیا کل علی اکبرؑ بھی جائیں گے؟” امام خاموش ہو گئے۔ صرف آنکھ سے ایک آنسو گرا اور زمینِ کربلا نے اُسے اپنے سینے میں چھپا لیا۔ کوئی جواب نہ آیا، مگر خاموشی میں وہ صدمہ چھپا تھا جسے صرف بہنیں سمجھ سکتی ہیں۔
کربلا میں نو محرم کا سورج صرف دن نہ تھا، وہ چراغوں کا الوداع تھا، وہ عباسؑ کی پہرہ داری کا آخری دن، وہ سکینہؑ کی گود کا آخری سایہ، وہ زینبؑ کی چادر کی آخری بے فکری اور حسینؑ کے لبوں پر "رضاً بقضائک” کی آخری مہک تھا۔ وہ دن جب حسینؑ نے خالق سے کہا: "اے پروردگار! اگر یہی تیرا فیصلہ ہے تو ہمیں قبول ہے!”، یہ وہ عزم تھا جسے میدانِ کربلا میں کسی تلوار نے نہیں توڑا، کسی نیزے نے جھکایا نہیں۔
یہ سورج وہ سوال لے کر آیا جو آج بھی زندہ ہے، جب سچ تنہا رہ جائے، جب ظلم چاروں طرف ہو، جب وقت کا حسینؑ پکارے… تو کیا تم اُس کے ساتھ کھڑے ہو گے؟ کیا تم سکینہؑ کے سوال کا جواب دے سکو گے؟ کیا تم زینبؑ کی چادر بچانے کی ہمت رکھتے ہو؟
اسی شبِ عاشور، امام حسینؑ نے اپنے خیمے کے باہر تمام اصحاب اور اہلِ بیت کو جمع کیا۔ خیموں کے چراغ مدھم ہو رہے تھے، مگر حسینؑ کا لہجہ مثلِ آفتاب روشن تھا۔ انہوں نے فرمایا: "میں تمہیں رخصت کرتا ہوں۔ یہ اندھیری رات ہے، جسے جانا ہے، چلا جائے۔ میں اپنی بیعت تم سے اٹھاتا ہوں۔ کل میرے ساتھ ہر وہ شخص مارا جائے گا جو میرے ساتھ رہے گا۔” مگر جواب میں ہر طرف سے ایک صدا آئی: "ہم آپ کے ساتھ جینے نہیں، صرف مرنے کے لیے آئے ہیں۔” یہ وہ رات تھی جب وفا نے تاریخ کی سب سے روشن قسم کھائی کہ کل سورج کربلا سے ڈوبے گا، مگر حسینؑ کا کارواں حق کی روشنی بن کر رہ جائے گا۔