کہاں گئی شہباز سپیڈ؟
تحریر: ڈاکٹر غلام مصطفیٰ بڈانی
پاکستان کی سیاست میں شہباز شریف کا نام ایک ایسی رفتار کے ساتھ جڑا رہا ہے جو بظاہر نا ممکن کو بھی ممکن بنا دیتی تھی۔ جب وہ وزیراعلیٰ پنجاب تھے تو اُن کی شہرت اُن کی غیر معمولی انتظامی مہارت، منصوبوں کی تیزی سے تکمیل اور عوامی ریلیف پر مبنی پالیسیوں کی بدولت "شہباز سپیڈ” کے نام سے معروف ہوئی۔ لاہور میٹرو، آشیانہ اسکیم، دانش سکولز، فلائی اوورز اور ہسپتالوں کی بہتری کے منصوبے اُن کی شناخت بنے۔ لیکن آج جب وہ پاکستان کے وزیراعظم ہیں تو عوام حیران ہے کہ وہی شہباز سپیڈ کہاں کھو گئی؟ کیونکہ اب مسائل کے انبار لگے ہیں، وعدے ادھورے ہیں اور عوامی ریلیف ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔ یہ سوچنا بجا ہے کہ کیا وہی شہباز شریف ہیں یا اب رفتار کو زنجیروں میں جکڑ دیا گیا ہے؟ یہ سب دیکھ کر لگتا ہے کہ اب صرف فائلیں دوڑ رہی ہیں، عوام نہیں اور شہباز سپیڈ بس ایک سیاسی یادگار بن کر رہ گئی ہے۔

جب وزیراعظم نے قوم سے وعدہ کیا کہ بجلی سستی کریں گے تو لوگوں کو امید بندھی۔ لیکن عملی طور پر وزارت توانائی نے ایسے اقدامات کیے کہ عوام پر مہنگائی کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ وزیر توانائی اویس لغاری نے 201 یونٹ کا سلیب سسٹم متعارف کروا کر بجلی کے نرخ کئی گنا بڑھا دیے۔ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ نے انکشاف کیا کہ آٹھ ڈسکوز نے 244 ارب روپے کی اووربلنگ کی، جس کا کوئی حساب نہیں۔ لاکھوں صارفین کو اضافی بل جاری ہوئے اور زرعی صارفین کو بھی 148 ارب سے زائد کی اووربلنگ کر دی گئی۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ بجائے ان کمپنیوں کے خلاف کارروائی کرنے کے، سب کچھ فائلوں میں دبا دیا گیا۔ عوام پریشان ہیں، حکومت خاموش ہے اور ظلم کا سارا بوجھ شہباز سپیڈ کے سر ڈال دیا گیا ہے۔ حالانکہ یہ سب ظلم اویس لغاری نے کیے، شہباز سپیڈ کا اس میں کوئی قصور نہیں۔

ایندھن کی قیمتوں پر قابو پانے کا وعدہ بھی ہوا میں تحلیل ہو چکا ہے۔ وزیراعظم نے کہا تھا کہ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں کم کی جائیں گی، لیکن عالمی مالیاتی ادارے کی شرائط نے ان کے ہاتھ باندھ دیے۔ پٹرول اب عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو چکا ہے۔ دوسری جانب چینی کا معاملہ لیں تو حکومت نے شوگر مافیا کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے۔ چینی جو عام آدمی کے لیے ضروری تھی، اب ایک پرتعیش شے بن چکی ہے۔ یہ سب اس نظام کی خرابیاں ہیں جنہوں نے شہباز شریف کی رفتار کو باندھ رکھا ہے۔ ان کے ارادے جتنے بھی بلند ہوں، عملی پیش رفت ندارد۔ مگر یہ سب ناکامیاں شہباز سپیڈ کی نہیں، بلکہ مافیا نے شہباز سپیڈ کی ہینڈ بریک پر قبضہ جما کر بریک لگا دی ہے۔

معاشی بحران کے اس دور میں اشرافیہ کی مراعات میں اضافہ عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ ارکان اسمبلی، سپیکر اور وزراء کی تنخواہوں میں کئی گنا اضافہ کر دیا گیا، ساتھ ہی ساتھ مفت بجلی، پٹرول، علاج، رہائش اور گاڑیوں کی سہولتیں بدستور جاری رہیں۔ کہا گیا کہ اگر ان کے مطالبات تسلیم نہ کیے جاتے تو حکومتی اتحاد خطرے میں پڑ جاتا۔ دوسری جانب، پنشنرز، سرکاری ملازمین اور سفید پوش طبقہ مہنگائی کی چکی میں پس رہا ہے۔ آئی ایم ایف کو اشرافیہ کی ان مراعات پر کوئی اعتراض نہ تھا، لیکن جیسے ہی عوامی تنخواہوں میں اضافے کی بات آئی، قسط روکنے کی دھمکی دے دی گئی۔ یوں وسائل بالا طبقے کی جھولی میں ڈال دیے گئے اور عوام کو صرف قربانی کا بکرا بنایا گیا۔ یہ سب دیکھ کر یہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ شہباز سپیڈ کی ناکامی نہیں بلکہ نظام کی وہ غلامی ہے جس نے شہباز سپیڈ کے ہاتھ باندھ دیے ہیں۔

واپڈا کی تقسیم کار کمپنیوں میں کرپشن، اووربلنگ اور بجلی چوری جیسے معاملات نے حکومت کو اخلاقی طور پر دیوالیہ کر دیا ہے۔ کمپنیوں نے آڈٹ ریکارڈ دینے سے انکار کر دیا، اربوں روپے کی خرد برد کا جواب دینے والا کوئی نہیں۔ کیا وزیراعظم اکیلے اس سب کا ذمہ دار ہیں؟ ہرگز نہیں۔ وزیر توانائی کی نااہلی، نیپرا کی خاموشی اور بیوروکریسی کی ملی بھگت نے عوام کو اندھیرے میں دھکیل دیا ہے۔ اس صورتحال میں عوام کا سوال بجا ہے کہ کہاں گئی شہباز سپیڈ؟ لیکن جواب یہ ہے کہ شہباز سپیڈ کو تو روک دیا گیا، لوٹنے والوں نے۔

دوسری طرف، عمران خان کا دعویٰ تھا کہ انہوں نے 90 دن میں کرپشن ختم کر دی، لیکن ان کے دور میں آٹا، چینی اور پٹرول کے اسکینڈلز سامنے آئے۔ جہانگیر ترین، خسرو بختیار اور دیگر وزرا پر الزامات لگے، لیکن کسی کو سزا نہ ملی۔ رپورٹیں دبائی گئیں، قوم کو سبز باغ دکھائے گئے۔ شہباز شریف پر تنقید ضرور کریں، لیکن یہ بھی دیکھیں کہ کیا عمران خان کی رفتار نے عوام کو کچھ دیا؟ یا صرف تقاریر اور دعوے کیے؟ یہ دونوں رہنما عوامی خدمت کے دعوے دار ہیں، لیکن عوام کے مسائل آج بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں کل تھے۔ اور اسی لیے شہباز سپیڈ پر تنقید سے پہلے سچائی کو بھی تسلیم کرنا ضروری ہے۔

اگر کوئی توقع باقی ہے تو وہ صرف اسی وقت پوری ہو سکتی ہے جب شہباز شریف اپنی پرانی رفتار کو دوبارہ زندہ کریں۔ انہیں چاہیے کہ وہ عوام کے حقیقی مسائل کو سمجھیں، کرپشن کے خلاف بھرپور کارروائی کریں، بیوروکریسی کو قابو میں لائیں اور فیصلہ کن کردار ادا کریں۔ عوام اب صرف وعدوں سے نہیں، عمل سے مطمئن ہو گی۔ اگر شہباز سپیڈ کو دوبارہ زندہ کرنا ہے تو اب وقت ہے کہ فیصلے میدان میں کیے جائیں، صرف پریس کانفرنسوں میں نہیں۔ بصورتِ دیگر، شہباز سپیڈ صرف ماضی کا ایک قصہ بن کر رہ جائے گی۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا شہباز سپیڈ واقعی اپنے پرانے ٹریک پر دوبارہ دوڑنے کے قابل ہو سکے گی؟ کیا وہ تمام رکاوٹیں عبور کر پائے گی جنہوں نے اس کی رفتار کو جکڑ رکھا ہے؟ کیا بجلی بحران، سلیب سسٹم کا خاتمہ اور اویس لغاری کی برطرفی ممکن ہو پائے گی؟ کیا عوام کو سستی چینی اور ایندھن دوبارہ میسر آ سکے گا؟ اور سب سے بڑھ کر، کیا یہ سب کچھ شہباز سپیڈ ممکن بنا پائے گی؟ عوام ان سوالات کے جوابات کی منتظر ہے اور وقت ہی بتائے گا کہ شہباز سپیڈ پھر سے اپنا جادو جگا پاتی ہے یا نہیں۔

Shares: